ہمیں ایسی امداد نہیں چاہیے

donation

donation

شاید ہماری آبرو مندی کا لمحہ سعید ابھی نہیں آیا،امریکی فوجی امداد کی معطلی سے تھوڑی دیر کو یہ خوش گمانی ضرور پیدا ہوئی کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے پاکستان کی رگوں سے خون چوسنے والی اس دیرینہ بیماری کا پتہ چلالیا ہے جس نے نائن الیون کے بعد ہمارے ملک کے چپے چپے میں خوف و وحشت اور ویرانی کا رنگ بھر دیا ہے،تھوڑی دیر کو ایسا لگا کہ ہمارے ارباب اختیار نے پاکستان کو لاحق اصل Core Issue کا سراغ لگالیا ہے اور وہ امریکی امداد کی آکسیجن پر زندہ رہنے کے بجائے اپنے وسائل اور خودانحصاری سے اس مرض کے علاج پر متفق ہوگئے ہیں جس نے ایک غیرت مند قوم کو کھائے ہوئے بھوسے کا ڈھیر بنادیا ہے،مگر افسوس کہ یہ خوش رنگ منظر بہت جلد دھندلا گیا،جنرل پاشا کے دورہ امریکہ نے خودانحصاری کی ساری خوش فہمی خاک میں ملادی،معالجینِ قوم کا فیصلہ ہے کہ ابھی ہمیں امریکی امداد کی آکسیجن پر مزید زندہ رہنا ہے اور قوم کو امریکی امداد کی زہر آلود شوگرکوٹیڈ گولیاں اور کھانی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکی امداد کا زہرہمارے جسدِ قومی میں اِس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ ِاس سے گلو خلاصی آسان نہیں ہے،مگر چھٹکارا حاصل کرنے کی تمنا اور کوشش تو کی جاسکتی ہے،جبکہ قوم پہلے ہی تیار ہے بلکہ بارہا بیزاری کا اظہار بھی کرچکی ہے،پھر یہ بات کون نہیں جانتا کہ پاکستانی فوج اور قوم کیلئے امریکی امداد ایک ایسا زہر ہے جسے امریکہ شوگر کوٹیڈ گولیوں کی شکل میں پیش کرتا ہے،اِس امداد کا فائدہ نہ تو پاکستانی فوج کو ہے اور نہ ہی ملک کی عوام کو،کیونکہ اِس کے ساتھ امریکی مفادات اور مطالبات کی ایک طویل فہرست نتھی ہوتی ہے،ظاہر ہے جب امداد وصول کی جائے گی تو ان مطالبات کو بھی تسلیم کرنا ضروری ہو گا جو امریکہ امداد کے عیوض ہم سے چاہتا ہے،گذشتہ دنوں پاک فوج کو ملنے والی 80کروڑ ڈالر کی امریکی امداد کی معطلی اور پھر بحالی بھی دراصل اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے،امریکی مطالبہ تھا کہ انسداد دہشت گردی،عسکریت اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں مزیدکچھ کیاجائے،جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی پارٹنر بننے سے پاکستان ایک عشرے سے بد ترین دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے،جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے،اب تک ہم اِس جنگ میں پانچ ہزار فوجیوں اور تیس ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کی جانیں قربان کر چکے ہیں،ستم یہ ہے امریکہ ابھی تک ہمارے جذبہ بے اختیاری شوق پر یقین نہیں کررہا،کبھی اس کا میڈیا دور کی کوڑی لاتا ہے،توکبھی ہمارے ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ قرار دیا جاتا ہے،کبھی فوج اور آئی ایس آئی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں،تو کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم نے درست معلومات فراہم نہیں کیں،غرض کہ ہر طرح کی قربانی کے باوجود ہماری خدمات اور وفا شعاری مشکوک قرار پاتی ہے ۔ وفا شعاری کے اِن مظاہر اور قومی سطح پر انتہائی بھاری قیمت چکانے کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں،ہمارے ایٹمی اثاثے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں،ملک دہشت گردی اور انارکی کی آگ میں جل رہا ہے،کشمیر کاز مٹھی میں بند ریت کے زروں کی مانند ہمارے ہاتھوں سے پھسل چکا ہے اور ہماری معیشت ابھی تک امداد کے آکسیجن ٹینٹ میں موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے، اِس کے باوجود امریکی وزیر خارجہ اور دوسرے ذمہ داران کی جانب سے مسلسل کہا جارہا ہے کہ ہم نے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا کرنا چاہئے تھا،حیرت کی بات ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود امریکہ کی طرف سے ڈو مور کے تقاضے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے، امریکی امداد کیلئے آئے دن نت نئی شرائط عائد کی جا تی ہیں اور پاکستان پر مسلسل دبا ڈالا جا تاہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو کام امریکہ اور اس کے اتحادی نہیں کر پائے وہ پاکستان کر دکھائے،اگر اِس جنگ میں پاکستان کے کردار اور اِس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان کو دیکھا جائے تو یہ امریکی امداد جس کا چر چا پوری دنیا میں ہے اور جو ہمارے سالانہ قومی بجٹ کا ڈیڑھ فیصد سے بھی کم ہے،درحقیقت اونٹ کے منہ میں زیرے کا بگھارکے مترادف ہے،اِس حقیر رقم کے عوض ہم نے اپنی قومی وقار اور ملکی سلامتی کو جو ٹھیس پہنچائی ہے وہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اِس بھاری نقصان کے عوض ہمیں جتنی امریکی امدا د ملی ہے،وہ درحقیقت نیٹو کو سپلائی لائن کی سہولت دینے کا کرایہ بھی نہیں ہے،جبکہ پاکستان سے گرزنے والا نیٹو کا یہ سپلائی روٹ ہمارے ملک میں جنگ زدہ ماحول کی ایک علامت بن گیا ہے،یہ ہمارے حریص حکمران ہیں جو امریکی امداد کو اپنے لیے بہت کچھ سمجھتے ہوئے قومی مفادکی آڑ میں اسے قبول کرتے ہیں وگرنہ پاکستان بیش بہا تعاون کے تناظر میں یہ امداد امریکی احسانات کے پہاڑ میں دفن شدہ و ہ چوہا ہے جس کے تعفن سے پوری قوم ذہنی مریض بن چکی ہے،دوسری طرف اتنی عظیم قربانی کے بعد پاکستانی عوام اتنے امریکہ تعاون کے بھی مستحق قرار نہیں پائے کہ ان کا سپر وار پارٹنر انر جی کی قومی ضروریات پوری کر نے میں جنگ زدہ قوم کی مدد کرتا،جبکہ اس نے بھارت کو ایٹمی توانائی کی ٹیکنالوجی سے نوازا،پاکستان،ایران اوربھارت تیل پائپ لائن منصوبے پر بھارت پر سفارتی دبا ڈال کر اِس لیے ثبوتاژکیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں تھا،اسی طرح اس نے پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں قائم ہو نے والے جہادی گروپس کی معاونت کودہشت گردی قرار دیا اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کیلئے بھی کوئی سفارتی تعاون فراہم نہیں کیا،یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کا ایک مصنوعی کردار گھڑ کر اسے افغانستان میں ہماری سرحدو ں کے ساتھ بیٹھاکر ہمارے دفاع کیلئے ایک اور چیلنج پیدا کردیا ۔ یہ نائن الیون کے تناظر میں پاک،امریکہ تعلقات میں امریکی رویے پر مشتمل ایک مختصر پس منظر ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور سابق سویت یونین کے درمیان عالمی سر د جنگ میں سیٹو،سینٹو کے عسکری معاہدوں میں عملا اہم ترین رکن ہو نے سے لے کر افغانستان میں روسی جارحیت کے خاتمے کا بیس کیمپ بننے تک،امریکہ کے ساتھ پاکستان کی بے مثال پارٹنر شپ اورسرد جنگ کی تاریخ میں ہمار ے نتیجہ خیز تعاون کی داستانیں بکھری پڑی ہیں،دونوں ملکوں کی اِس پارٹنر شپ میں کون کتنے فائدے میں رہا ہے،آپ پیش کردہ حقائق سے بہتر اندازہ لگاسکتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو حاصل ہونے والے فوائد ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں،امریکہ نے پاکستان کے تعاون سے جتنے وسیع ترمفادات حاصل کیے ہیں،اس کا اشراشیر بھی پاکستان کو نہیں ملا،لیکن اِس کے باوجودامریکی ڈو مور کے مطالبے میں کمی نہیں آتی،یہ حقیقت اظہر ا لمنشمس ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی باہمی تعلقات میں پاکستان کے والہانہ پن کے جواب میں خلوص کا مظاہرہ نہیں کیا،جبکہ دوسری طرف ہمارے ارباب اقتدار امریکہ کی اصل نیت کو بھانپنے میں جانتے بوجھتے ناکام رہے،بدقسمتی سے یہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ہمیں اپنے مقاصد کیلئے بے دریغ استعمال کرتا رہا،جبکہ ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ جب بھی ہم پر کوئی مشکل وقت آیا تو امریکہ نے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا،ایسا ایک بار نہیں بارہا ہوا،امریکہ نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی فوجی امداد روکی،1965 اور 1971 کی جنگوں سمیت امریکہ نے سات بار فوجی اور اقتصادی امداد روک کر پاکستان کوجھکانے کی کوشش کی،دراصل امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کی بات نہ کرے،صرف امریکی احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتا رہے،خواہ اس پیروی اسے کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں پانچ سات ارب ڈالر کا لالچ دے کر سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کرایا اور اب مزید نقصانات اٹھانے کیلئے پاکستان پر دبا ڈال رہا ہے،جبکہ پہلے ہی پاکستان نام نہاد امریکی دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے بے انتہا نقصانات اور مشکلات سے دو چار ہے،مگر پھر بھی امریکہ ہمارے کردار سے مطمئن نہیں،آج ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کی پالیسیوں نے ہی ہماری سلامتی کو سنگین خطرات سے دوچار کردیاہے، پہلے ہماری سیکورٹی فورسز کو امریکی ایماپر قبائلی علاقوں میں اپنے ہی شہریوں کیخلاف صف آراکیا گیا،جس کے ردعمل میں ہمیں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے باعث سخت جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا،اب اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں افغان باشندوں کو تہس نہس کرنے کا کام پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے سر تھوپ دیا جائے،امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز امریکی مفادات کی تکمیل کی خاطر قبائلی علاقوں میں اپنے ہی شہریوں کیخلاف برسر پیکار رہیں اور پاک افغان بارڈر پر افغان باشندوں کیخلاف نیٹو فورسز والا کردار ادا کریں اور دوسری طرف وہ بھارت کو اس کا نگران بنا کر خود دور بیٹھا تماشا دیکھتا رہے،یہ سنگین صورتحال کسی طور بھی پاکستان کے مفادمیں نہیں،اِس میں نہ صرف ملک کی سلامتی دا پر لگے گی بلکہ افغان باشندوں کی مزاحمت کے کیساتھ ساتھ ملک کی سا لمیت کو مغربی سرحدوں پر مکار دشمن بھارت کے ہاتھوں سخت خطرات کا بھی سامنا رہے گا،جو ہماری افواج کو قبائلی علاقوں اور پاک افغان سرحد پر مصروف پا کر پاکستان کی سا لمیت کیخلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے ۔ لہذا امریکہ کی جانب سے جس جارحانہ انداز میں پاکستان کی بقا سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے منافی پالیسیاں اختیار کرکے ان پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے،اسکے پیش نظر ہمیں کسی بھی قسم کی امداد پر تکیہ کرنے کے بجائے ملکی وسائل اور خودانحصاری کے متبادل ذرائع اختیار کرنے چاہیں،اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ عالمی طاغوتی طاقتوں کے نمائندے کی حیثیت سے ہمارے ساتھ بدترین دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے،امریکی مفادات کی جنگ میں ہمارے حکمران چاہے اپنے ملک و قوم کے مفادات کو نظرانداز کرکے اسکے احکامات کی تعمیل میں کتنے ہی مصروف کیوں نہ رہیں،امریکہ کبھی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ اپنی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیاں ترک کرے گا،جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے،چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی مفادات کی جنگ میں اپنی دفاعی قوت جھونکنے کی غلطی کرنے کے بجائے امریکی امداد کی آکسیجن پر زندہ رہنے سے گلو خلاصی حاصل کی جائے،ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ امریکی دبا کے آگے مزید جھکنے کے بجائے قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آبرومندانہ فیصلے کریں اور امریکہ پر واضح کردیں کہ پاکستان اب مزید اس کیلئے طفیلی ریاست کاکردار ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا،خدا کے فضل وکرم سے پاکستان ایک باوسائل ملک ہے جو امریکی امداد کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے،یاد رکھیں پاکستان کی بقا سلامتی اور استحکام و سا لمیت کا راز امریکی غلامی سے نجات اور خودانحصاری میں پوشیدہ ہے، ایٹمی پاکستان کے بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا تھاکہہمیں ایسی امداد نہیں چاہیے جو ہمیں قومی مفادات سے بے خبر بنا دے۔
تحریر : محمد احمد ترازی