’والی صاحب کے زمانے میں اتنے میلے لگتے تھے کہ ہم سازندوں کو کھانا تو درکنار چائے پینے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ گرمیوں میں کھاتے پیتے شنواری اور آفریدی تاجر اور خان اپنے دنبے ساتھ لاتے تھے اور ہمیں بحرین اور کالام تک لے جاتے تھے۔ کئی کئی دن تک محفلیں رہتی تھیں اور جاتے وقت جو سامان بچ جاتا تھا وہ بھی ہمیں دے کر خوش خوش جاتے تھے۔ آج ہمیں ڈمب (ڈوم) کہا جاتا ہے۔ یہی لوگ والی صاحب کے زمانے میں ہمیں اور ہماری رقاصاؤں کو اساتذہ کہہ کر سر آنکھوں پر رکھتے تھے۔ مہنگائی نے جہاں مجروں کو محدود کردیا وہیں ادب آداب بھی ہوا میں بکھر گئے ‘
استاد شیر زمان کے برابر بیٹھی گنگو اور کسی عام سی بوڑھی عورت میں کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا۔ ستر، بہتر برس کی گنگو کے چہرے پر خزاں نے جھریوں کی صورت ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ٹھیک سے اب چلا بھی نہیں جاتا۔ لیکن یہی گنگو جس کے قدم آج من من بھر کے ہوگئے ہیں، والی کے دربار میں تاج محل رقاصہ کے طور پر جانی جاتی تھی۔انیس سو چالیس کی دہائی کا وہ یومِ تاجپوشی بندگھڑی کی سوئی کی طرح اس کے دماغ سے چپکا ہوا ہے جب والی کے درباری اس پر مخمل اور پیسے نچھاور کررہے تھے۔ جب گنگو شاہی محافظوں کے تحفظ میں میلوں ٹھیلوں میں اپنی گائیکی اور رقص کی چھب دکھلاتی تھی تو تماشائی کھڑے ہو کر داد دیتے تھے۔
گنگو جیسی رقاصاؤں کی یہ عزت صرف رسمی نہیں تھی۔ جب کوئی خان کسی رقاصہ پر فدا ہوجاتا تھا تو من کی سچائی ثابت کرنے کے لیئے شادی تک کرلیتا تھا۔ گنگو کو بخمینہ یاد ہے جس سے ایک خان نے مرتے دم تک نباہ کیا۔ زیبا یاد ہے جسے والی نے اپنے حرم کی زینت بنا لیا۔
’مگر میرے ساتھ کیا ہوا۔ میں ناچی۔ میری دو سوکنیں ناچیں۔ آج میری اور سوکنوں کی بیٹیاں اور پھر ان کی بیٹیاں ناچ رہی ہیں۔ میں مخمل کے فرش پر ناچنے والی آج اپنے حالات سے اتنی تنگ ہوں کہ کسی کے برتن دھونے اور جھاڑو لگانے پر بھی آمادہ ہوں‘۔
’ہمارے مردوں کو مفت کھانے کی عادت ہے۔ اس لیئے بیٹیاں ناچتی ہیں۔ ہمارے گھر پر ناچ گانا نہیں ہوتا۔ مینگورہ کی بلدیاتی حدود میں بھی ناچ گانے پر پابندی ہے۔ اگر باہر سے بلاوے نہ آئیں تو ہم تو بالکل ہی مرجائیں ۔ ہم سوات سے کہیں اور بھی نہیں جاسکتے۔ کیونکہ یہ محلہ والی کے زمانے سے مشہور ہے۔ پورے صوبہ سرحد میں ایسی کوئی جگہ نہیں۔ ہم یہاں سے اٹھ گئے تو کوئی ہمیں پوچھے گا بھی نہیں‘۔
گنگو کی دو پوتیوں کو گنگو کی بہو بیگم جان نے اس لیئے نچوایا کہ باپ کے علاج کے لئے دولاکھ روپے چاہیئے تھے۔ خود بیگم جان کراچی میں آباد ایک سواتی سازندے کے گھر پیدا ہوئیں اور شادی کے بعد منگورہ آئیں۔ بیگم جان نے بتایا کہ خاندان میں بہو کو نچوانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مجھے تین لڑکیوں کی پیدائش کے بعد بھی ناچنا پڑا۔ ایک کی شادی ہوگئی۔ دو نے باپ کے علاج کے لئے قدم باہر نکالے۔ اب یہ خود بہت مشہور ہوگئی ہیں۔ ان کے رقص کی سی ڈی نکلنے کے بعد مجروں کے لیئے مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔ اب تو یہ میری بھی نہیں سنتیں‘۔
نیلو اور شبانہ بیگم جان کی باتیں سن سن کر مسلسل مسکراتی رہیں اور جیسے ہی مائیکروفون کا رخ ان کی طرف ہوا مسکراہٹ رخصت ہوگئی۔
’ہم نے صرف قران پڑھا ہے۔ سکول نہیں گئے۔ ماں نے دو دفعہ کوشش بھی کی لیکن ہم نے سوچا کہ جب یہی سب کرنا ہے تو پڑھائی سے کیا فائدہ۔ اب ہمارا یہی اسکول ہے۔ پڑھنے جائیں تو لوگوں کے طعنے سنیں۔ مجروں میں جاتے ہیں تو لوگ گال اور بال کھینچتے ہیں۔ اسکول میں صرف بے عزتی ہوتی ہے۔ مجروں میں بے عزتی کے پیسے بھی ملتے ہیں۔ کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا جب ہم ناچتے ناچتے دل ہی دل میں کبھی کبھار رو پڑتے ہیں۔ جب کوئی آواز لگاتا ہے کہ کیا تمہارے گھر میں کوئی مرگیا ہے جو اس بے دلی سے ناچ رہی ہو تو پھر ہم دل کھول کر ناچتے ہیں۔
مگر جو لوگ نشے میں بدتمیزی نہیں کرتے وہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ شادی کرلو۔ گھر لے لو۔ ساری دولت لے لو۔ تم نہ ملیں تو تمہارے گھر کے سامنے خود کو مارڈالوں گا۔ نہیں مانیں تو مجرے سے اٹھا کر لے جائیں گے۔ گھر پر بندے لے کر آئیں گے اور بالوں سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے۔ ہم کہتے ہیں اس سب کی کیا ضرورت ہے تم ہمیں ویسے ہی لے جاؤ۔ ہمارے ماں باپ کے پاس رشتہ بھیج دو۔تب انکا نشہ اتر جاتا ہے‘۔
شبانہ نے نیلو کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’لوگ خون سے شعر اور خط لکھ کر ہمیں زبردستی تھما دیتے ہیں۔ مجھے ایک آدمی کے بارے میں یہ جان کر اتنا دکھ ہوا کہ اس نے مجھے جو خط لکھا تھا وہ اپنے نہیں مرغی کے خون سے لکھا تھا۔ میں اور نیلو جب شاپنگ کرنے کبھی جاتے ہیں تو برقعے کے باوجود وہ پیروں اور آنکھوں سے پہچان جاتے ہیں۔ دیکھو دیکھو نیلو جارہی ہے۔ سی ڈی والی نیلو۔۔۔ ہم بہت ڈرتے ہیں۔ ہماری کئی لڑکوں سے لوگوں نے جھوٹ بول بول کر شادی کی اور دوتین مہینے بعد طلاق دے کر نکال دیا۔ لوگ پہلے ہمارا ناچ یا سی ڈی دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اور پھر بھوت ہوجاتے ہیں‘۔
شاہ زیب کی عمر تیس سال ہے۔ وہ شبانہ کا بھائی بنا ہوا ہے۔ نویں کلاس میں استاد نے کسی بات پر مار مار کر اس کے ہاتھ کا انگوٹھا توڑ دیا اور یہ کہتے ہوئے کلاس سے نکال دیا کہ تم ڈمب پڑھ کر کیا کروگے۔ طبلچی کی اولاد ہو جاؤ طبلہ سیکھو۔ شاہ زیب اس دن کے بعد سکول نہیں گیا ۔ درزی کا کام سیکھا۔ افغان درزیوں نے اتنے سستے کپڑے سینے شروع کئے کہ شاہ زیب نے یہ کام بھی چھوڑ دیا۔ اب وہ نیلو اور شبانہ کے ساتھ آتا جاتا ہے۔
کہنے لگا ’ہمیں ہمارے ماں باپ نے اس کے علاوہ کچھ نہیں سکھایا کہ بہنوں کے ساتھ بیٹھو یا ان کے ساتھ جاؤ۔ بتائیں ہم اور کیا کریں۔ اگر لوگ ہمیں برا سمجھتے ہیں تو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ہم اچھے کیسے بنیں۔ والی صاحب کے زمانے میں ہم کیوں اچھے کہے جاتے تھے۔ ہم تو چور اور ڈاکو تک نہیں بن سکتے۔ پھر بھی ہم برے ہیں۔ اگر ہیں تو ہیں۔۔۔۔کیا کریں۔۔۔۔۔بس ہیں۔۔۔ہم ایسے ہی ہیں۔ میری تین بیٹیاں ہیں۔۔۔اگر سب کچھ ایسے ہی رہا تو وہ بھی ناچیں گی۔۔۔۔اور شاید ان کی بیٹیاں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔