ہم رہیں نہ رہیں صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی طرح صحافت بھی ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اگر کسی ریاست کے صحافی اپنے فرائض موثر طریقے سے سرانجام نہ دیں تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے ۔صحافی کے قلم سے لکھا ہوا ایک لفظ ملک وقوم کے لیے بہترین یا بدترثابت ہوسکتا ہے۔اسی لیے صحافی اپنے نظریے اور تجزیے کو بڑے ہی محتاط انداز میں پیش کرتے ہیں ۔یوں تو انسان کسی مذہب یافرقے کا قیدی نہیں بلکہ فطرتا آزاد پیدا ہوتا۔اس لیے آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ جسے دنیا میں قانونی حیثیت بھی حاصل ہوچکی ہے۔اسی طرح آزادی صحافت بھی آئینی اور قانونی حق ہے ۔ جہاں حقوق ہوں وہاں فرائض کا ہونا لازم ہے ۔
آزادی صحافت کا آئینی حق ہے ،اسی لیے صحافت کے ہر ادارے کو چاہیے کہ وہ حقائق کی ترسیل میں بغیر کسی خوف وخطر اور دبائو کے اپنے حق کو استعمال کریں ۔کیونکہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے ‘لہٰذا صحافیوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنی آزادی اظہار پر پابندی نہ لگنے دیں۔سچے اور کھرے صحافی کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ صحافی عوام کے دلوںمیں وطن سے محبت کا احساس وشعور پیداکرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ایک اچھے و سچے صحافی کے قلم سے نکلا ہوا ایک لفظ اہل اقتدار کے لیے سیاسی موت و حیات کا پیغام بن سکتا ہے۔اسی لیے ہردور میں حکمرانوں نے کسی نہ کسی طرح صحافت کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن آج تک کوئی بھی حکمران خواہ کتنا ہی جابر کیوں نہ ہوصحافت کوقید نہیں کرپایا جس کی وجہ سے دنیا میںصحافت کا قد روزبروز بلند وبالا ہورہا ہے ۔خاکسار کے خیال میں جب کوئی نظریہ یا تجزیہ صرف ایک شخص تک مدود رہے گا ۔
تو معاشرے کو اس نظریے یا تجزیے کا کوئی فائدہ نہیںپہنچے گا ۔ابلاغ کی بدولت معاشرے کے تمام مسائل کوایک دوسرے سے تبادلہ خیال کے بعد حل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معاشرتی زندگی کو خوشگوار بناتے ہوئے نہ صرف معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے بلکہ ایک مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔راقم ابھی صحافتی دنیا کا ننھا سا طالب ہے ۔طالب علم سے یاد آیا کچھ دن قبل میری ملاقات سینئر کالم نگار و صحافی ناصر اقبال خان سے ہوئی ان کا یہی کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کالم نگار نہیں سمجھتے وہ تو ابھی طالب علم ہیں ۔لیکن میرے نزدیک ناصراقبال خان بہت سینئر کالم نگار ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ کچھ روز پہلے ccpکے کسی ممبر نے ان کو فون کرکے ccpمیں شامل ہونے کی دعوت دی تھی لیکن خان صاحب کا خیال ہے کہ ابھی ضرورت نہیں کیونکہ سینئر لوگ تو اندر سے دروازہ بندکرکے خاموش بیٹھے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور بھی ان میں شامل ہو۔خان صاحب کی بات سے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ جب ہمیں اللہ تعالیٰ کوئی مقام دیتا ہے تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا اس مقام پر پہنچ گیاتو ہماری حیثیت کم تر ہوکررہ جائے گی۔
بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ایسی ہی سوچ نے ہمارے کچھ دانشوروں کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔لیکن خیر وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں ہوتیں رہتی ہیں ۔کالم نویسوں کی دنیا میں ایسی ہی ایک خوش نما تبدیلی آچکی ہے۔جس کا نام ہے کالمسٹ کونسل آف پاکستان ccp))۔ccp کے تمام ممبران کا خیال ہے کہ نوجوان نسل کی تخلیقی سوچ کسی بھی قوم کا عظیم سرمایا ہوتی ہے ۔ اور اگر بزرگ اپنی نوجوان نسل کی تخلیقی سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کرئے توسونے پہ سوہاگہ والی بات ہوگی ۔ ccpنے یہ ذمہ اپنے سر لیا ہے کہ ہرنئے لکھنے والے کی جس قدر ہوسکے حوصلہ افزائی کی جائے اور اپنا علم و ہنر اپنی آنے والی نسل کے سپرد کرنے میں دیر نہ کی جائے تاکہ نئی نسل اس علم وہنر کو مزید نکھار کر دنیا و آخرت میں ہماری شان بنے۔ ccpکے ممبران کی سوچ یہ ہے کسی نئے لکھنے والے کا اضافہ ہونے سے ان کی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا اگر کوئی اچھا لکھے گا تو ادارے اسے اپنے صفات میں جگہ دیں گے ہم کسی کوروک نہیں سکتے ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔
جو لوگ دوسروں کو پیچھے دھکیل کر خود کو آگے رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی موت کو بھول چکے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ سدا زندہ رہنے والے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے ،ہم تو اس دنیا میں تھوڑی دیر کے مہمان ہیں ۔اسی تھوڑی دیر میں ہمیں اپنا علم وہنر اپنی نئی نسل کے حوالے کردینا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں جہالت کے اندھروں کی طرف نہ پلٹ جائیں ۔ہمارے بڑوں کی اسی چھوٹی سوچ نے آج ہمیں مشکلات میں ڈال رکھاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوزا ہے ۔پھر بھی پاکستانی عوام در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے صرف اپنی چھوٹی سوچ کی وجہ سے ۔ ہم اپنا علم و ہنر اور مال ودولت صرف اپنے اولاد کو دینا چاہتے ہیں ۔چاہے وہ اس قابل ہویا نہ ہو۔میں آج ایسی چھوٹی سوچ رکھنے والے بڑے دانشوروں کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں کہ عقل ودانش تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بڑھتی رہتی ہے ۔اس لیے آئیں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔ اب بھی اگر ہم معاشرے میں موجود برائیوں سے جان چھوڑا کرصاف ستھرا ،ترقی یافتہ پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر پاکستانی کی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔ بڑوں کو چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی اسی کا نام جمہوریت ہے۔
columnist council Pakistan
میری نظر میں کالم نگاری ایک مقدس اور قومی فریضہ ہے ۔پرانے لکھنے والوں کی بے رخی اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں ۔جن کاازالہ کرنے کی غرض سے کالمسٹ کونسل آف پاکستان قیام وقت کی اہم ضرورت بن گیا تھا ۔نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی روایت کالمسٹ کونسل آف پاکستان نے رکھ دی ہے ۔ جس میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگ کالم نگار بھی شامل ہیں چوبیس گھنٹے اپنے نوجوان ساتھیوں کی رہنمائی کرنے کے لیے تیاررہتے ہیں۔کل ہم رہیں نہ رہیں کالمسٹ کونسل آف پاکستان اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتی رہے گی ۔ تحریر امتیاز علی شاکر