پھر اُگلے گی دھرتی سونا پھر مہکے گا کونا کونا یوں ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلیں ہم ایک ہیں یہ پیرس کی تاریخی شام 15 جون 2012 ہے ـ پیرس جیسے مصروف شہر میں اور ویک اینڈ کے بغیر اتنا ہجوم اکٹھا ہونا بتا رہا تھا کہ، جس انسان کی آمد متوقع ہے وہ کوئی خاص ہستی ہے ـ جس کے کردار جس کے کام اور جس کے انداز کی دنیا دیوانی ہے ـ
موجودہ پاکستان کے سیاسی ماحول کی مایوسی نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی بنیادوں کو لرزا کے رکھ دیا ہے ـ مسلسل اذیتیں سہتی عوام اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ وہ نہ تو وہ ان کے سیاسی ڈرامے دیکھنا چاہتی ہےـ نہ ہی سننا چاہتی ہے ـ بس صبر شکر کا گھونٹ بھر کر خود کو پاکستان کا شہری کہتے ہوئے ہر بد نصیبی کا حقدار سمجھنے لگے ہیں ـ
ایسے میں ایک بے باک حق و صداقت پے مبنی آواز سنائی دیتی ہے ـ انصاف عزت امن و امان مانگ رہا ہے پاکستان خیبر سے کراچی تک ایک ہی نعرہ ایک ہی نام عمران خان عمران خان آج وہی عمران خان پیرس میں اپنے مداحوں سے ملنے آ رہے ہیں ـ پیرس میں یہ سیاسی ڈنر جو تحریک انصاف فرانس نے دو ہفتوں کے مختصر سے نوٹس پے منعقد کیا ـ ہر منظر دیدنی تھا ـ ایک تو ہال بہت مہنگا جو لیڈر کے شایانِ شان تھا ـ اس کے بعد اس ہال کے طویل القامت درودیوار پے آویزاں استقبالیے کے خوبصورت انداز ـ پی ٹی آئی کے جھنڈے بنا کر ہر دیوار پے چسپاں تھے جو اپنی بہار الگ دکھا رہے تھے ـ پی ٹی آئی کے سرخ سبز اور سفید رنگ کے غبارے ہر ستون پے لہراتے ہوئے پی ٹی آئی یوتھ ونگ کی محنتوں کا ثمر تھے ـ جو آنکھوں کو لبھا رہے تھے ـ ہر ٹیبل پے نظر آنے والی خوبصورت کراکری اور ان کے ساتھ سبز اور سرخ نیپکنز پارٹی عہدیداران کی پی ٹی آئی سے محبت کا واضح ثبوت تھا ـ جو درجنوں ٹیبلز کو با رونق بنا رہے تھے ـ
قائد تحریک کے استقبال کیلئے ایک ایک رکن پی ٹی آئی کس قدر پُرجوش کس قدر مضطرب تھا وہ الگ کہانی ہے ـ یہ محبت یہ جزباتی لگاؤ کسی کے کہنے یا ٹھونسنے سے نہیں ہوتا ـ یہ وہ محبت ہے جو پڑھے لکھے باشعور لوگ اپنے لیڈر کی شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس سے کرنے پے خود ہی مجبور ہوتے ہیں ـ پاکستان جیساملک ہو اور روایتی سیاست سے ہٹ کر ہر بات میں الگ راستہ دینا اور پھر اس پے چلنے کیلیۓ پہلے خود کو عملی طور پے پیش کرنا صرف اسی قائد نے کر کے دکھایا جس کو “”کھرا عمران خان”” کہتے ہیں ـ ـ جس پر بڑے بڑے مگرمچھ کوئی کرپشن کا الزام ثابت کرنے سے قاصر رہے ـ پاکستان کی گندی سیاسی فضا میں یہ معجزہ ہےکہ ایک صاف ستھرا لیڈر منظرِ عام پے آیا ہے ـ
کئی دنوں سے پی ٹی آئی فرانس کے تمام کے تمام موجودہ اراکین دن رات اس چیرٹی ڈنر کو کامیاب بنانے کیلیے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ـ ٹکٹس کی فروخت سے لے کر کھانے کا انتظام پھر ہال کی سجاوٹ ائیر پورٹ سے مہمانوں کے لانے لیجانے کا کا انتظام کرنے میں مصروف تھے ہر روز میٹنگز کی جا رہی تھیں پروگرام کے حوالے سے مختلف انداز میں غورو خوض کیا جاتا تھا ـ تاکہ معزز مہمانوں کے قیام کے دوران کوئی کسر نہ رہ جائے ـ اور پروگرام اپنے ہدف کو یعنی پی ٹی آئی کے پیغام کو بھی بہترین انداز میں عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو ـ 14 جون کو محترم مخدوم جاوید ہاشمی صاحب پیرس تشریف لائے اور اسی رات تحریک انصاف لیبر ونگ کے صدر میاں ذوالفقار کے گھر پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں پوری پی ٹی آئی نے شرکت کی ـ دوسرے روز قائد تحریک عمران خان کی آمد متوقع تھی جس کا ہر دل کو ہر دماغ کو شدت سے انتظار تھا ـ یاسر قدیر ڈٰاکٹر وحید رزاق یہ دو نام ایسے ہیں جو ہمیشہ ہی پی ٹی آئی کے شاندار پروگرامز کی جان ہیں ـ ان کے بغیر شائد پی ٹی آئی کے پروگرامز کو ادھورا سمجھا جاتا ہے ـ یوتھ ونگ کے ساتھ مل کر ہال کی سجاوٹ اِور دیگر امور کی نگرانی کر رہے تھے ـ ان کے ساتھ یوتھ ونگ نے بڑی جانفشانی کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور سارا دن تمام یوتھ ونگ ان کے ہمراہ ایک ایک پہلو کو باریک نگاہ سے دیکھا ـ آپ سب کا ہم لوگ دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ـ
Imran Khan
قائد تحریک کا ہال پہنچنے پے فقید المثال استقبال ہوا ـ عمران خان کے چہرے کی حیرانی بتا رہی تھی کہ وہ بھی شائد یورپ میں اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے ہیں ـ اتنے بڑے ہال میں دو ہزار سے زائد اشخاص موجود تھے ـ جن کو کھانا فراہم کیا گیا ـ میڈیا کے معزز اراکین کا ہم دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اس اہم تاریخی موقعے پے ان کا تعاون مثالی تھا سب نے دل کھول کر سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر قائد تحریک انصاف کو بھرپور انداز میں کوریج دی ـ جو پاکستان تحریک انصاف کیلئے یقینا فخر کی اور اعزاز کی بات ہے کہ کل کے گمنام نوجوان آج پریس کی آنکھ کا تارا بن چکے ہیں ـ میڈیا کا اتنی بڑی تعداد میں آنا سیکریٹری اطلاعات یاسر قدیر کی دن رات کی محنت کا ثبوت ہے ـ رضاکارانہ انداز میں پی ٹی آئی کا ہر ممبر اپنی اپنی جگہ اپنی خدمات پیش کر رہا تھا جبھی تو ایسا شاندار پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا ـ
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے کیا گیا اس کے بعد نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کی گئی اس کے بعد تحریک انصاف کے معزز رکن محترم عارف مصتفائی صاحب نے اپنے مخصوص ُپرجوش انداز میں نظریاتی سوچ پے مبنی تقریر کی جس میں ہال میں موجود پاکستانیوں کو عمران خان کی پکار پے دعوت فکر و عمل دی “ـ ان کے شاندار انداز کو سب نے بہت سراہا ـ
ان کے بعد پاکستان وویمن ونگ کی صدر محترمہ شاہ بانو میر کو دعوتِ خطاب دی گئی ـ شاہ بانو میر نے السلام علیکم پاکستان سے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ خدارا وقت کی پکار کو سن کر اپنے ملک کے بیس کروڑ لوگوں کیلئے عمران خان کا ساتھ دیں ـ جاگیں اور پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے تمام سیاسی جماعتوں کے گو اس وقت سیاسی وابستگی ذاتی پسند برادری سسٹم اقرباء پروری سے ہٹ کے پاکستان کی بقا کے لئے اکٹھے ہو کر عمران خان کو مضبوط بنائیں اور پاکستان کو بچائیں ـ اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ رہی کہ ماضی میں فوزیہ قصوری نے شاہ بانو میر کی تقریرکو بہت سراہا تھا ـ پاکستان گئے ہوئے پی ٹی آئی فرانس کے وفد کو بھی شاہ بانو میر کے لئے پیغام دیا ان کی تقریر کی تعریف کی ـ
اس بار قائد تحریک محترم عمران خان صاحب نے بھی ذاتی طور پے شاہ بانو میرکو کہا کہ وہ بہت متاثر ہوئے ہیں ان کی فی البدیہہ تقریر سے ـ اس کے بعد پاکستان اسٹئیرنگ کمیٹی کے رکن محترم شوکت رانجھا صاحب جو پاکستان سے فرانس اسی ڈنر کیلیۓ تشریف لائے تھے ـ ان کو بھی پیغام دیا کہ وہ شاہ بانو میر تک ان کا پیغام پہنچا دیں کہ ان کی تقریر اور پی ٹی آئی کے ساتھ ان کے جذبے کی شدت نے ان کو بہت متاثر کیا ہے ـ میاں ذوالفقار صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ لوگ اس لئے منسلک ہیں کہ واحد اس جماعت کی کارکردگی اور انداز سے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے ـ ہم پھر سے اپنے کامیاب تاریخی کردار کو نبھا سکیں گے ـ محترم شوکت رانجھا صاحب نے اپنی تقریر میں پاکستان تحریک انصاف کے اغراض و مقاصد پے بھرپور انداز میں اپنی سیاسی بصیرت کے ساتھ روشنی ڈالی ـ
جاوید ہاشمی کی آمد پے باغی باغی کے نعروں نے ہال میں جوش و خروش پیدا کر دیا تھا ـ جاوید ہاشمی صاحب نے اپنی تقریر مین پاکستان تحریک انصاف کو موجودہ مشکل وقت مین بہترین جماعت قرار دیتے ہوئے عمران خان کو محب الوطن سچا اور بے داغ لیڈر قرار دیا جو پاکستان کے ساتھ ہر طرح سے مخلص ہے جس کے اثاثے بیرون ملک نہیں ہیں ـ نہ ہی کوئی ایسا خفیہ بینک اکاؤنٹ ہے او رنہ ہی ایسی بے شمار رقم کہ جس کا حساب نہ دے سکیں اس وقت یہی ایک سچے کھرے ایماندار لیڈر کی نشانی ہے جو عمران خان میں ہے ـ ان کے بعد جیسے ہی اعلان کیا گیا کہ اب خطاب کے لئے تشریف لا رہے ہیں عمران خان جس طرح ہال میں ان کی آمد کے موقع پے جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ویسے ہی ان کی مائک پے آمد نے مہمانوں کو کھڑا ہونے پے مجبور کر دیا ـ پورا ہال دیر تک ان کے لئے تالیاں بجاتا رہا بیحد خوشگوار موڈ میں عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف فرانس کی ٹیم کو اتنی محنت کرنے اور ایسا شاندار پروگرام منعقد کرنے پے مبارکباد پیش کی جس نے ہال میں موجود تمام ممبران کے چہروں کی تھکاوٹ کو دور کردیا ـ اس کے بعد عمران خان نے بہت روانی اور سیاسی پختگی کے ساتھ اپنے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے 500 مگرمچھ ہیں جن کو پکڑنے کیلئے شائد اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈیوٹی لگا دی ہے ـ
میرے نوجوانو!!! یہ جملہ ہال میں بیٹھے نظریاتی نوجوانوں کو گرما گیا اس ایک لفظ میں کتنا درد کتنا مان ہے یہ پاکستان کا نوجوان جانتا ہے جو آج اپنی پوری صلاحیتوں اور توانائیوں کے ساتھ عمران کا نوجوان بن چکا ہے جو اپنے ملک کی بقا کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا ـ عمران خان نے اپنی تقریر میں چیف جسٹس کیلیۓ بہت خوبصورت الفاظ استتعمال کئے کہ سیاسی وڈیرے ان کو دانستہ طور سے دباؤ میں لانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف ماضی کی طرح اب بھی چیف جسٹس کا ساتھ دے گی ـ
بہت اہم بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ریاض ملک نے سب کو خریدا ہوا ہے کوئی ادارہ کوئی انسان ایسا نہیں جس اس کی دسترس سے باہر ہو کوئی جا کے اسے پوچھے کہ کیا وہ میری قیمت لگا سکا ہے؟ نہیں لگا سکا وہ میری قیمت کیا لگائے گا ـ یہ بے باک بیان یہ شفاف انداز ہال میں موجود ہر پاکستانی کے سر کو فخر سے اونچا کر گیا کہ اس کا قائد اس کا ہیرو یقینا اس وقت بہترین ہے ـ
پاکستان تحریک انصاف کا یہ چیرٹی ڈنر اپنی مقبولیت اپنے ہجوم اور اپنے ہیرو کی وجہ سے یادگار بن گیا ـ لوگوں کا ہجوم تھا جو سیکورٹی کی پرواہ کئے بغیر سٹیج کے سامنے جا کر ایک ایک لمحے کو محفوظ کرنا چاہتے تھے ـ ہر چہرہ آسودہ اور کوشی سے دمک رہا تھا ـ یہی خوشی پی ٹی آئی پاکستان کے ہر شہری کے چہرے پے دیکھنے کی خواہاں ہے جس کے لئے اس تحریک میں شامل ہوئے ہیں ـ پی ٹی آئی کا یہ پروگرام بھی حسبِ سابق تمام سیاسی روایتی ڈنرز کے ریکارڈ توڑ گیا ـ اور ایک بار پھر ثابت کر گیا کہ ہم ایک ہیں ـ اس ہجوم کو اس کامیابی کو اس اتحاد کو اس نظریاتی اساس کو تھامے ہوئے پی ٹی آئی کا ایک ایک ممبر چمکتے دمکتے چہروں سے شائد کچھ لوگوں سے سوال کر رہا تھا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے ـ
اس نوزائیدہ جماعت کی کارکردگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیرس کی سیاسی جماعتوں میں مختلف سوچ کے باعث ایک ہی سیاسی جماعت کئی کئی دھڑوں میں منقسم ہو جاتی ہےـ یہ بات یورپ بھر میں معیوب نہیں سمجھی جاتی ـ پیرس میں تحریک انصاف فرانس نے سیاسی بساط پے اپنی نظریاتی اجارہ داری کو اس انداز میں ثابت کیا ہے کہ پہلی بار سیاسی معززین حیران ہیں کہ اس نوزائیدہ جماعت نے دو دھڑوں میں بٹی جماعت کو متحد سوچ نظریاتی اساس اور ٹیم ورک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک جماعت کی صورت نمایاں کر دیا ہے ـ کسی سیاسی دھڑے بندی کے بعد کسی جماعت کی واپسی ایک ہونے کی صورت اس سے سے پہلے نہیں دیکھی گئی ـ اس میں کمال جہاں کو آرڈینیٹر عمر رحمان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا ہے ـ وہاں بلاشبہ عمر رحمان کو مشکور ہونا چاہیۓ تحریک انصاف کے ایک ایک ممبر کا جو( گھر) یعنی اپنی پارٹی کے اندر رہ کر کے اندر رہتے ہوئے تمام مسائل کو حل کرتے ہیں ـ لیکن پارٹی کے وجود کا مقصد اور اپنی نظریاتی اساس کو ذاتی “” انا”” کی بھینٹ نہیں چڑہاتے ـ
میں خاص طور سے میاں ذوالفقار صاحب تسلیم اشرف صاحب میاں سلیمان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گی ـ ان لوگوں کے ساتھ کام کر کے ایک بات کا برملا احساس ہوا کہ ہم لوگ بہت متحرک ہیں ذہنی طور پے باشعور بھی ہیں ـ لیکن سیاسی میدان میں جو مخصوص کارکردگی اور انداز ہوتا ہے اس سے ہم پی ٹی آئی والے قطعا محروم ہیں ـ لیکن یہ لوگ جب بات کرتے ہیں جب بولتے ہیں اور جب فیصلہ سناتے ہیں تو ان کے اندر کا منجھا ہوا سیاسی رکن ہمیں ہماری اس کمی کا شدت سے احساس دلاتا ہے ـ ان کے پاس سیاسی تجربہ ہے اور مخصوص سیاسی اندازِ فکر ہے دوسری طرف ہماری جماعت کے تمام کے تمام نوجوان بشمول وویمن ونگ کم سیاسی تجربے کے پاکستان کی عوام کے حقوق کیلئے سرگرمِ عمل ہے ـ ہماری کمی اور ان کی خوبی مل کر اس پی ٹی آئی کو اس قابل بناتے ہیں کہ آج ہم سب ایک ہیں ـ فرانس کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز بِلاشبہ پی ٹی آئی کے پاس ہے ـ اتنی مختصر مدت میں اتنے بڑے بڑے کامیاب سیاسی جلسے او رڈنرز ہمارے سوا کس نے کئے ؟
وجہ صرف ایک ہے اس میں شامل سب لوگ لالچ سے ذاتی مفاد سے اور کاروباری سوچ سے قطعی لاتعلق ہیں ـ اور انہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سا ہو تو سامنے آئے ؟