کراچی کے نادرا آفس کے باہر وہ نوجوان بری طرح جھنجھلا یا ہوا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ سارے عملے کا آملیٹ بنا کر کھا جاتا۔ لوہا گرم دیکھ کر جب میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ سب ہماری وجہ سے ہے۔ ہم نوجوان ہیں، پر خوش ہیں… ولولہ اور اسپرٹ کے بے تاج بادشاہ مانے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ہمیں یوں ذلیل ہونا پڑ تا ہے اس کی لازماً کوئی ایسی وجہ ہوگی جس کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔
یہ معلوم کریں کہ بنیادی غلطی آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنا ووٹ صحیح لوگوں کو دیتے ہیں جو صرف آپ کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ایماندار ہوں۔ کیا ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا سا تھ دیتے ہیں یا انھیں سیاست چمکانے والا گروہ قرار دے کر گھر کے ڈرائینگ روموں میں بیٹھ کر کوئی نئی فلم دیکھنے لگتے ہیں۔ میرے ان سوالوں کا جواب اس نوجوان سمیت کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس کی گردن شرم سے جھکی ہوئی تھی۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا… ”یہ شرمندگی نوجوانوں کو زیب نہیں دیتی۔ ایک شخص کے بدلنے سے واقعی پورا معاشرہ نہیں بدلتا لیکن وہ شخص خود بدل جاتا ہے اور اسی طرح ایک ایک قطرے سے دریا بنتا ہے۔ روز قیامت بھی ہم سے یقینا اس حوالے سے کوئی باز پر س نہیں ہوگی کہ معاشرہ کیوں خراب تھا؟ یا تم اسے کیوں صحیح نہیں کرسکے۔ بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تم نے اپنی کوششیں کتنی کی؟ کیا برائیاں دیکھ کر تم نے اپنی منہ میں انگلیا ں ڈال لی تھی؟ یاشتر مرغ کی طرح ریت میں سر دھنسا لیا تھا۔
جناب من! یہ تو معاشرے کے ایک نوجوان کا قصہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پورا معاشرہ اسی وبا کا شکار ہے۔ سخت مایوسی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اپنے اندازے… مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر میرا اندازہ ہے کہ مایوس لوگ تب ہوتے ہیں جب وہ عملی طور پر میدان میں نہیں ہوتے۔ کسی کوشش کی جدو جہد میں شامل نہیں ہوتے… وہ معاشرے کی برائیاں دیکھ کر کڑھتے ہیں اور کف بکتے ہوئے آرام سے چادر تان کر سوجاتے ہیں…حالانکہ وہ اس قوم کا روشن مستقبل ہیں… وہ اگر اپنا اپنا حصہ مثبت سرگرمیوں میں ڈال کر اپنے حصے کا فرض ادا کرنا شروع کر دیں تو کامیابی ان کے قدموں میں بھاگی چلی آئیگی۔
اس قوم کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس قوم کی قیادت وہ لوگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو خود سراپا مایوس ہوتے ہیں۔ جن کے انگ انگ سے مایوسی کسی فوارے کے فوار کی طرح بہہ رہی ہوتی ہے۔ حسن نثار ہو یا نذیر ناجی…یا ان کے اسی قبیل کا کوئی شخص… ان کا بس چلے تو پاکستانی قوم کے ان قابل فخر نوجوانوں کو اپنی مایوس باتوں کے ذریعے زندہ در گور کردیں۔
Pakistan Sositys
وہ انہیں نیچ اور گھٹیا ثابت کر نا چاہتے ہیں۔ وہ سارے الزامات ان کے سر لگا کر… اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ بجائے اس کے… کہ وہ اپنے حصے کا کوئی دیا جلائے جاتے۔وہ ان نوجوانوں کو متحرک کرنے کوشش کرتے… انہیں لسانی یا فرقہ ورانہ سرگرمیوں سے ہٹا کر پاکستان کی تعمیروترقی کی راہ پر گامزن کرنے کوششیں کرتے… مگر انہوں نے تو ٹمٹما تے ہوئے چراغوںکو اپنے پھونکوں سے بجھانے کی ناکام کوششیں کیں… انہیں فنا کے گھاٹ اتارنا چاہا اور ان کے وجود سے لوگوں کو کراہیت دلانے کی کوششیں کیں… لیکن چنداں یہ نوجوان بھی بڑے ڈھیٹ ہیں۔ لوگو ں کو بیدار کرنے کے لیے اپنی کوشش مزید تیز کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے یہ مایوس اینکرز، قلم کار اور تجزیہ نگار شاید اس عظیم لڑکی ”ارفع کریم رندھاوا” کو بھول جاتے ہیں جس نے سب سے کم عمری میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ( ایم سی پی) کا اعزاز حاصل کیا۔ اپنی ذات سے بھی مایوس یہ طبقہ 9 سالہ”بابر” کو بھی بھلا بیٹھا۔ جس نے ارفع کریم رندھاوا کا ریکارڈ توڑتے ہوئے… سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزاز حاصل کر تے ہوئے پاکستان کا نام روشن کیا۔ نہ خود کچھ کرنے والے اور نہ اوروں کو کچھ کرنے دینے والے اس ”ایم ایم عالم” کو بھی یاد نہیں کرتے۔ جس نے6 ستمبر 1965ء کو اپنے سپر جیٹ طیارے کے ذریعے سے 30 سیکنڈ میں 5 بھارتی ”نیڈ طیارے ” تباہ کر کے عالمی ریکارڈ بنایا۔
مایوسی کی گرداب میں دھنسے یہ لوگ… اکتوبر 1971ء میںا سپین کے شہر بار سلونا میں ہونے والا ہاکی کا پہلا عالمی کپ بھی اپنی یادوں سے محو کر بیٹھے ہوںگے… جو پاکستان نے اسپین سے جیتا تھا۔ اس جیت کی خوشی میں پاکستان کا قومی کھیل ہاکی رکھ لیا گیا۔ ان خوشیوں اور کامرانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مایوسیوں کے یہ غلام ابن غلام شعیب اختر کی تیز ترین گیند بازی اور شاہد آفریدی کے چھکوں کے ریکارڈ کوبھی کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس قوم کی برائیوں کو اچھال اچھال کر پیش کرتے رہے… اور اچھائیوں اور بھلائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عار محسوس کرتے ہیں۔
ننگ دیں اور ننگ وطن کے یہ پجاری اس ”سارہ ناصر” کو بھی بھلا بیٹھے ہیں… جس نے ڈھاکہ میں منعقد سائوتھ ایشین گیم کے کراٹے میں خواتین کی 55 کلو گرام ویٹ کیٹگری میں… نیپال کی ”انوادھیکاری” کو شکست سے دوچار کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا۔
قوم کو مایوس کرنے والا یہ گروہ 28 مارچ 1992ء کو حاصل کیا جانے والا وہ عالمی کرکٹ کپ بھی بھول گئے جس پر پوری قوم پھولے نہ سمارہی تھی۔ پورے ملک میں جشن منایا گیا اور یہی لوگ خود کو پاکستانی کہلواتے ہوئے فخر محسوس کر رہے تھے۔ دشمن کے ایٹم بموں سے ڈرانے والے یہ ”میر جعفر” اور ”میر صادق” 28 مئی 1998ء کو چاغی میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی گونج بھی برداشت نہ کر سکے اور کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہنے لگے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور قوم کو ایٹم بم بنانے کا جنون سوار ہے۔
Dr Abdul Qadeer Khan
یہی وہ لوگ تھے جو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مذاقاڑا کر کہتے تھے کہ ‘یہ شخص بھلا ایٹم بم کیا بنائے گا۔’ پاکستانی قوم کو مایوسیوں کے دلدل میں دھکیلنے والا یہ گروہ ”علی معین نوازش” کا وہ اہم کردار بھی بھول گیا جس نے کیمبرج یونیورسٹی کے اے لیول کے ”24 مضامین” میں سے ”22 مضامین” میں ”اے گریڈ” حاصل کر کے عالمی ریکارڈ بنایا۔
حضرات! اس طبقہ کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو ہندو پنڈت کی طرح بغل میں چھری رکھتا ہے اور منہ میں رام رام کا گیت گاتا ہے۔ کیوں کہ ان کا واحد مقصد اپنی شخصیت کی بناوٹ اور شخصی قدا وری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اپنے قلم و زبان کے ذریعے جو کچھ لکھتے ہیں اور جتنا کچھ بیان کرتے ہیں اس کا مقصد قومی کردار سازی نہیں بلکہ اپنی واہ واہ کا چرچۂ عام کرنے کا باعث ہوتا ہے۔یہ اگر قوم کے قائد ہوتے تو جس طرح ان کی زبان یا قلم میدان میں ہے اسی طرح ان کا وجود بھی میدان عمل میں ہوتا۔
ان کی نجی زندگی بھی لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہوتی۔زبان داری کے ذریعے پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنا محض ان کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ فرانس اور اٹلی کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی شاندار مثالوں سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنے والے معاشرے کی اصلاح تو درکنار ، اپنے جیسا ایک اور کالم نگار پیدا نہیں کر پاتے۔سیاست دانوں کو ٹھڈے مارنے کا مشورہ دینے والے اپنے قلم سے سیاسی نہج پر کسی نوجوان کی رہنمائی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔
جانے دیجئے ! ان ضمیر فروشوں کے کرادر پہ نگاہ ڈالنے سے جی متلانے اور دل کے کڑھنے کے سوا کیا حاصل ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت کے تھپیڑوں کے آگے فولادی چٹان بن کر جم جانے والی اقوام نے اگر اپنے انمٹ نقش چھوڑے ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ انہوں نے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر اپنے حال کی اصلاح کی ہے اور مستقبل پر اثر انداز ہوئے ہیں۔لہٰذا ماضی و حال کی یہ مثالیںہمارے بہتر مستقبل کی ضامن ہیں۔
یہ تو وہ اعزازات اور ریکارڈز ہیں جو منظر عام پر آگئے ہیں… اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے اعزاز ات اور ریکارڈز ہیں… جو منظر عام پر نہیں آسکے… اگر ان کی تفصیلات بتائی جائیں تو شاید کبھی ختم نہ ہوں۔ اس قوم میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے… لیکن ایک بڑا طبقہ اس قوم کو مایوس کر کے اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے۔ وہ اپنی دکان چمکانے کی غرض سے مضبوط بنیادوں پر استوار نظر یات کو دو منٹ میں اپنی باتوں کے ذریعے قلع قمع کر کے… قوم کو مایوسی کا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ … یہ قوم ان نظریات کو برداشت نہیں کرے گی۔ وہ اپنی ہر چیز کو انسانیت کی بھلائی اور دوسروں کے ہر کام کو وحشی جنگلی درندوںسے جوڑدیتے ہیں۔
Studant Pakistan
”ارفع کریم رندھاوا ہو یا 9 سالہ ”بابر”…” محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان” ہو یا اس ملک کے صادق و امین سیاست دان… وہ سب اس قوم کے روشن مستقبل ہیں۔ ملک پاکستان کا ہر طالب علم اس قوم کا روشن مستقبل ہے… اگر وہ اپنے مقصد کو اچھے طریقے سے سمجھ سکے۔ وہ چوروں … لٹیروں کی اندھی تقلید کے بجائے ان لوگوں کے ہاتھ پر بیعت کر ے جو اس تاریک راتوں کو صبح کے اجالے میں بدلنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو اس مملکت خداداد پاکستان کو اپنی اسلامی تجربہ گاہ بنانے کے خواہش مند ہیں۔ جو قصر صدارت کے محلوں کے بجائے مسجدوں کو اپنے فیصلوں کی آماجگاہ بنائیں۔ جو زندگی کے ہر سیاسی، معاشرتی، معاشی معاملے میں قوم کو یہ پیغام دے رہے ہوں۔ تحریر : اعظم طارق کوہستانی