پاک، بھارت کشیدگی اتار چڑھائو کے عمل سے ہوتی ہوئی اب نئی شاہراہ پر گامزن ہے۔ دونوں اطراف سے تندوتیز بیانات، بھرپور تیاریوں، سفارتی روابط، تیز تر سرگرمیوں کے بعد اب عالمی دنیا بھی اس کا حصہ بن کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جب درجہ حرارت دونوں اطراف سے 100 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ جائے تو پھر اس کو کم کرنے اور مقررہ اوسط پر لانے کیلئے کچھ وقت بھی درکار ہو گا۔ ہاں ایک بات امید افزاء ہو سکتی ہے کہ یہ درجہ حرارت سرد موسم کی بدولت کم کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیئر اس کو کم کر سکیں گے یا پھر کارگل کی برفانی ہوائے اس کی تپش اور تمازت کو کنٹرول کر پائیں گی۔ پاکستان جو شروع میں سفارتکاری کے محاذ پر کافی کمزوری دکھائی دے رہا تھا اور قدرے پسپائی پر مجبور تھا یکدم فرنٹ فٹ پر جاکر اپنی سفارتکاری کو حرکت میں لا کرسارا(Scenario) ہی تبدیل کر دیا۔ پاکستان نے اپنے دیرینہ دوست چین کو اپنا مکمل ہمنوا بنا کر اسے ساری صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ چین نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کے مخلص اور باوفا دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے بات عالمی سطح پر اجاگر کی اور جنوبی ایشیا کے علاقے کو آگ کے شعلوں کی لپیٹ سے بچانے کیلئے تیز تر سفارتی کوششیں کیں جن کے خاطر خواہ نتائج ” ہندوستان کے لہجے میں قدرے نرمی” کی صورت میں سامنے آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جونہی پاکستان نے مصلحت اور مصالحت سے ذرا ہٹ کر کھل کر اپنا موقف عالمی برادری کے سامنے رکھا تو اس موقف کے پیچھے 17 کروڑ عوام کی طاقت بول رہی تھی اس جاندار موقف کو پاک آرمی، بحریہ، ائیرفورس اور ساری سیاسی قیادت کی حمایت حاصل تھی۔ گویا پاکستان کا موقف ایک پورے پاکستان کی طرف سے طاقتور نقطہ نظر بن گیا جس کو دنیا نے سنجیدگی سے لیا اور پھر اس پر سوچنا شروع کر دیا۔ پاکستان نے صاف، شفاف اور واضح انداز میں ہر امریکی و مغربی قیادت سے ملاقاتوں میں واضح کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور امن کا خواہاں ہے۔ لیکن امن کی زبان کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیونکہ کسی بھی ممکنہ ہندوستانی جارحیت کی صورت میں پاکستان اپنی سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرے گا ۔یہ وہ آواز تھی جس نے پوری دنیا کو ہلا دیا اور ان کے کانوں میں ٹھونسی ہوئی ہندوستان کی حمایت کی روئی کوبھی اڑا کے رکھ دیا۔ اب مغرب بخوبی جان چکا ہے کہ پاکستان اپنی سا لمیت اور خودمختاری کے حوالے سے بہت حساس ہے اور کسی دبائو کے تلے نہیں آسکتا ۔یہاں تک کہ امریکہ نے جنرل مائیک مولن کو بھی بھیجا اور پاکستان کو دبانے کی بھرپور کوشش کی لیکن پاکستان کی عسکری قیادت نے دوٹوک موقف اختیار کیا جو پوری پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتا تھا۔ البتہ مغرب نے یہ ضرور دیکھ لیا ہے کہ پاکستانی قوم ہزار ہا اندرونی خلفشار اور اختلافات کے باوجود دفاعِ وطن پر یکجان اور یک زبان نظر آتی ہے۔ رنگ و نسل اور علاقائی عصبیت سے بالاتر ہو کر ایمان اور پاکستان کے جھنڈے تلے پاکستانی قم ایک عزم، ایک نعرے اور ایک پیغام کی صورت میں یکجا نظر آتی ہے جو دنیا میں پاکستانی قوم کا ہی خاصہ ہے۔ پاکستان کے بھرپور سفارتی و عسکری دبائو کے باعث ہندوستان کے لب و لہجے میں قدرے تبدیلی محسوس کی گئی۔ کبھی ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ یہ کہتے کہ ” ہم جنگ نہیں چاہتے اور پاکستان کیساتھ تمام معاملات امن کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں” اس کے ساتھ ہی ہندوستانی وزیرخارجہ کے سخت جملے بھی نرم الفاظ کا روپ دھارنے لگے۔ ہندوستانی وزیرخارجہ پرناب مکھرجی جو ممبئی بم دھماکوں کے بعد اپنی زبان پر خاصہ گرم اور آتش گیر مادہ لئے ہوئے تھے اب انہوں نے بھی امن کی بات کرنا شروع کر دی ہے یکدم ہندوستان کی (Tone) کا بدلنا اور اس کے انداز تخاطب میں فرق آنا یقیناً ایک انقلابی تبدیلی ہے ہندوستان جو مسلسل پاکستان کو ثبوت دینے کی بات تکرار کیساتھ کہتا رہا اب اچانک پرناب مکھرجی نے ممبئی بم دھماکوں کے ثبوت پاکستان کو نہ دینے کا سرعام اعتراف کرکے خود کو ایک ناقابل اعتبار وزیرخارجہ ثابت کر دیا جو اپنی زبان حالات کے مطابق لانے کے عادی ہیں تاکہ دنیا یک مفت کے مخمصے میں مبتلا رہے اور اصل صورتحال سے بے خبر رہے۔ ہندوستان کی افواج سرحدوں پر جمع تھیں اور ہندوستان نے اپنے غیر فعال ائیربیسز کو ازسرنو فعال کرکے ممکنہ فضائی جارحیت کا بھی منصوبہ بنایا اب ہندوستانی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی اپنی افواج کی نقل و حرکت اور سرحد پر تعیناتی کو ” سرما کی مشقوں” کے جواز سے نتھی کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ہندوستان نے ہر طرح سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی اور اسے ناکام ریاست بنانے اور ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہر سطح پر ناکامیاب و نامراد لوٹا۔ پاکستانی قیادت نے شروع سے ایک ہی اصولی موقف اپنائے رکھا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن اپنی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کو قطعی طور پر برداشت نہیں کرے گا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے واضح انداز میں پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرکے ایک ذمہ دار ملک کے ذمہ دار وزیر خارجہ کا عملی ثبوت دیا۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کے لب و لہجے کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اب دونوں اطراف سے تنائو میں خاصی کمی نظر آرہی ہے اور دونوں اطراف کی قیادت نے احساس پیدا کر لیا ہے کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ جنگ کی بات پاکستان نے تو نہیں کی تھی، اس کا ڈھنڈورا تو ہندوستان نے پیٹا تھا اور اب خود ہندوستان جنگ سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے بات دراصل کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان نے امریکی شہ پر جارحانہ رویہ اپنا لیا تھا اور امریکہ کی آشیرباد کی چھتری تلے ہندوستان خود کو مضبوط تصور کر رہا تھا۔ لیکن جب امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان تو کسی طرح بھی شکنجے میں نہیں آرہا اور اگر پاکستان دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ سے بھی دستبردار ہو گیا تو خطے میں امریکہ کیلئے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے امریکی قیادت پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ہندوستان اپنی بری افواج پاکستان کے مشرقی سرحد کے گرد جمع کرے گا تو پاکستان بھی اپنی افواج ” وار آن ٹیرر” والی مغربی سرحد سے ہٹا کر مشرقی سرحد پر تعینات کرنے میں مجبور ہو گا۔ یہ وہ خطرہ تھا جس نے امریکی سیاسی و عسکری قیادت کو اندر سے جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور اب انہیں موت کی ایک وسیع دلدل نظر آرہی تھی امریکہ پاکستان کی حمایت کے بغیر خطے میں ایک رات بھی تنہا نہیں گزار سکتا اور اب تو افغانستان بھی امریکہ کیلئے ”دوسرا ویت نام” ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ کی چال تھی کہ وہ پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں پٹوائے اور پھر افغانستان سے ہندوستان کا رابطہ قائم کرکے عسکریت پسندی کیخلاف موثر انداز میں کارروائی کرے۔ یہ خواب پورا نہ ہونے کا شاید امریکہ کو شدید دکھ ہے۔اس وقت ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی میں روزانہ ہزاروں افراد گھر نہ ہونے کی وجہ سے رات کو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور دن کو محنت، مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کرناٹک، گجرات اور ہریانہ کی ریاستوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ ایشیاء پیسفک ہیومن ڈویلپمنٹ کی سالانہ رپورٹ 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں غربت کا ایک سیلاب بہہ رہا ہے جس کی رو میں روزانہ مفلس و لاچار افراد بہہ جاتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ہر رات ہزاروں بھوکے لوگ ہندوستان کے مختلف شہروں میں سو جاتے ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ ہیومن ڈویلپمنٹ کی اس رپورٹ کے مطابق ہندوستانی معاشرہ ایک غیر مربوط اور غیر منظم معاشرے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں نچلی ذات کے ہندوئوں کیساتھ سلوک دیکھ کر عقل دنگ اور منہ مقفل ہوجاتا ہے۔ ان نچلی ذات کے ہندوئوں کو تہذیبی اور ثقافتی سطح پر بھی کچلا جاتا ہے اور ہندو کلچر سے دور رکھا جاتا ہے نتیجے کے طور پر یہ ہندو یا تو انتہا پسند رجحانات کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر بغاوت اور علیحدگی کی تحریکوں میں تیزی سے شامل ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان خود اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے اس کی جڑیں نظریاتی و ثقافتی اعتبار سے کمزور پڑتی جا رہی ہیں ۔ ہندوستان کے لب و لہجے میں نمایاں فرق کی ایک بڑی وجہ اس کے اندرونی خلفشار، علیحدگی کی تحریکیں، غربت کی انتہا، لاقانونیت اور دیگر مسائل بھی ہیں۔ ہندوستان کی ریاست ” کیرالہ” سے نکلنے والے ماہانہ شمارے ” جنتا کی آواز” کے ماہ نومبر 2008ء کے شمارے میں ایک ہندو دانشور پروفیسر آنند داس نے ایک مضمون ” ہونٹ سی دئیے گئے” کے عنوان سے لکھا جس میں واضح طور پر ہندوستان کے مکروہ اور نام نہاد جمہوری لبادے سے نقاب الٹا گیا ہے۔ پروفیسر داس لکھتے ہیں کہ ”ہندوستان اپنے عوام کے مسائل تو حل نہیں کر پا رہا اور مسئلہ کشمیر حل کرنے چل نکلا ہے، ہندوستانی سرکار کا رویہ اپنے دیس کی جنتا کیساتھ نہ صرف عامیانہ ہے بلکہ غیر مساویانہ بھی ہے، کتنے لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں؟ کتنوں کی عزتیں روزانہ چوراہوں پر پامال کی جاتی ہیں؟ کتنے ہندوستانی نوجوان ڈگریاںلئے سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں؟ اگر سرکار نے بروقت اقدامات نہ کئے تو دیش بٹ سکتا ہے” یہ وہ پروفیسر داس ہیںجن کی جواں سال بیٹی کو ہندو طبقے ”برہمن” کے بااثر افراد اٹھا کر لے گئے اور پھر اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ تو ایک آواز ہے، نجانے کتنی ہزاروں آوازیں ہندوستانی معاشرے کے رویوں سے بیزار دکھائی دیتی ہیں جو ابھی زیر زمین موجود ہیں۔گویا ان تمام تر شواہد ، حقائق اور معلومات کی بناء پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہندوستان اندر سے پگھل رہا ہے۔ ہندوستان کو خود اپنے اندر کئی محاذوں پر خوفناک جنگوں کا سامنا ہے اور ایسی صورتحال میں یا تو وہ خود حالت جنگ میں ہے یا پھر وہ ان تمام بحرانوں پر پردہ ڈالنے اور ہندو معاشرے کو یکجا کرنے کیلئے پاکستان پر جارحیت کر سکتا ہے۔ لہٰذا دونوں آپشنز کو سامنے رکھ کر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ہندو بنیے کی ہر چال کا جرأت، حکمت اور تدبر سے جواب دیتی رہے، باقی تو وقت ہی بتائے گا کہ ہندوستان کتنے پانی میں ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان کو بلوچستان کے حالات کو نارمل کر کے بلوچ عوام کو بھی قومی دھارے میں چامل کرنا چاہیے اور اس مقصد کیلئے صدر آصف علی زرداری کی کاوشیں قابلِ داد ہیں۔پاکستانی قوم کے اتحاد کا لیول اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس لیول کو مزید بڑھانے کیلئے حکومت کو عام آدمی کو ریلیف دینا ہو گاتاکہ ہم اندر سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں۔قومیں مضبوط گھر سے مضبوط ہوتی ہیں نہ کہ ہندوستانی معاشرے کے خول کی طرح نام نہاد سیکولر ازم کے لبادے کی بدولت مضبوط رہ سکتی ہیں۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور تا قیامِ قیامت ان شاء اللہ قائم رہے گی۔ تحریر : عمر ریاض