صدر آصف علی زرداری نے ایک روزہ ہندوستان دورے کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے بعدکہا کہ”ہم نے سب ہی باہمی مسائل پر تعمیری بات چیت کی ہے۔ہندوستان اور پاکستان پڑوسی ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ہمارے درمیان بہتر رشتے قائم ہوں۔ ہم نے اُن سب ہی موضوعات پر بات چیت کی جن پر کر سکتے تھے”۔دوسری جانب ہندوستانی خارجہ سیکرٹری رنجن متھاء کے مطابق صدر زرداری نے ہندوستان کے سامنے بعض اہم مسائل اٹھائے اور کہا کہ سر کریک، سیاچن اور کشمیر جیسے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور فریقین نے یہ محسوس کیا کہ ان سبھی مسائل پر قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ گزشتہ برس جو مذاکرات شروع کیے گئے تھے انہیں جاری رکھا جائے گا اور اس کے دائرے کو مزید وسعت دی جائے گی۔
ایک روزہ ہندوستانی دورے کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ اور صدر زرداری دونوں ہی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان کی بات چیت ‘تعمیری’ رہی ہے۔بات چیت “تعمیری”، مثبت اور سود مند ثابت ہوئی اور مختصر سی ملاقات نے بہت دنوں کی کرواہٹ کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مثبت اور تعمیری ملاقات دو ملکوں کے سربراہان کے درمیان تھی یا اِن ممالک کے عوام کے درمیان ؟ کیا اس ملاقات نے ان کھلے دروازوں پر کوئی پہرے دار بیٹھایا جن راستوں سے گزر کر بہت جلد اس میٹھے درخت پر کرواہٹ کا کسیلا پھل لگ جاتا ہے جہاں پھر تمام باتیں صرف ایک دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں رہتیں؟ یا کچھ ایسے فیصلے اور عزم بھی ابھر کر سامنے آئے جن کے ذریعہ سمجھا جا سکے کہ واقعی سربراہان ممالک مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔
اس تعلق سے کانتی باجپائی جیسے دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو اس دوران صبر سے کام لینا ہوگا اور اگر ممبئی جیسا ایک اور حملہ ہوتا بھی ہے، تب بھی پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہیے اور سیاچن اور سر کریک جیسے پرانے مسائل کو ٹھیک کرنے کی کوششیں کی جانی چاہییں۔کیونکہ ناامیدی، نشیب و فراز سے بھرپور تعلقات کا حل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ملاقات اسی وقت کامیاب ٹھہر سکتی ہیں جب کہ دو فریقوں کے درمیان کوئی تیسرا نہ کھڑا نذر آئے ۔ہماری مراد امریکہ سے ہے کہ جس نے پہلے ہی دن سے پاکستان کو اپنا پسندیدہ ملک قرار دے کر اس کو ہر طرح سے نچوڑ لیا ہے۔ایسی صورت میں جہاں امریکہ اور اس کے حواریوں نے اسلام دشمنی اپنا سب سے پسندیدہ مذہب قرار دیا وہیں صورتحال یہ ہے کہ آج امریکہ کے پسندیدہ اربابِ حل وعقدنہ صرف مسلمانوں کو حراساں کر رہے ہیں بلکہ اسلام کو بھی بدنام کرنے میں پیش پیش ہیں۔ان حالات میںہندوستان اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ موضوع بحث بننے والے ایشو “دہشت گردی”کی صحیح تعریف سامنے لائیں۔ کیونکہ جو دہشت گردی کی تعریف آج بیان کی جاتی ہے اس کے بانی اور علمبردار امریکہ اور اس کے حواری ہی ہیںجنھوں نے9/11کے واقع کے بعد پوری شدت سے اسلام، اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں سے اسکا رشتہ منسلک کر دیاہے۔اب جہاں بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے جس میں مالی اور جانی نقصان ہو اور وہاں چند نام مسلمانوں کے بھی شامل ہوں(توعام طور پر بلا تحقیق جو بعد میں ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بنا پر خارج بھی ہو جاتے ہیں)اس کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں جبکہ دونوں ہی ممالک میں آئے دن یہ ہنگامی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان واقعات میں مسلم ناموں کے علاوہ دیگر بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں تو کیونکر وہ صرف مسلمانوں سے ہی جوڑے جائیں؟اور وہ لوگ جو اسلامی نام نہیں رکھتے ان کو دہشت گردکیوں نہ کہا جائے؟یہ مسلۂ دونوں ہی ممالک کے لیے اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا کے یہی وہ دو بڑے ممالک ہیں جہاں اسلام کے علمبردار تعداد کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔نہ صرف تعداد کے لحاظ سے بلکہ فکری اور شعوری لحاظ سے بھی ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔اوراس لحاظ سے بھی کہ گرچہ گھر تقسیم ہو گیااور ایک لمبی مدت بھی گزر گئی لیکن اس کے باوجود گھر کے مکین اب بھی ایک جان اوردو قالب کی مانندہی ہیں۔
دہشت گردی کی بات کریں توموجودہ دور میں دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے:دہشت گردی کے لفظی معنی دہشت پھیلانے اور خوف زدہ کرنے کے ہیں ۔سیاسی انسائیکوپیڈیا کے مطابق :”دہشت گردی نام ہے غیرقانونی تشدد پھیلانے یا تشدد آمیز دھمکیاں دینے کا ۔ مثلا خفیہ رازوں کو معلوم کرنے ، یا مال حاصل کرنے کے لیے افراد کے اندرپائی جانے والی مدافعانہ روح کو ختم کرنے یا تنظمیوں اور اداروں کی نفسیات کو کچلنے وغیرہ جیسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے حقائق کی غلط ترجمانی کرنا ، یا قتل وغارتگری ، ایذا ء رسانی اور خون خرابہ کرنا ۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ دھمکیاں کون کس کو دے رہا ہے؟ خفیہ راز کے حصول میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہے اور دنیا کی دولت پر سب سے زیادہ گرفت اور حصہ داری کس کی ہے۔
کیا ایسے گروہ اور ممالک دہشت گرد نہیں؟آکسفورڈ ڈکشنری میں دہشت گردی کی تعریف: “دہشت گرد وہ شخص ہے جو کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے منظم طریقے سے تشدد پھیلائے ”۔ان تمام تعریفات سے جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ ہے ” معاشرے میں خوف و اہراس اور وحشت پھیلانا ہی اصل دہشت گردی ہے ” ۔ مگر ان تعریفوں میں کچھ الفاظ غیر واضح ہیں ۔ مثلا : پہلی تعریف میں میں لفظ ”غیرقانونی ” کی شرط ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون کو معیارحق قرار دیا جائے ؟ جس کی خلاف ورزی پر کسی عمل کو دہشت گردی کہا جا سکے ۔ اگر ہر ملک اپنا ملکی قانون مراد لے تو ایک ملک کی دوسرے ملک پر دست درازی اور ظلم وزیادتی کو کس بنیار پر دہشت گردی قرار کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اس تعریف میں ایک اور لفظ ” مدمقابل ” ہے یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال پسند گردہ کا معیار کیاہے ؟ اور کیا ہر مدمقابل دہشت گرد کہلائے گا ؟دوسری تعریف میں تشدد کے ذریعے دہشت پھیلانے کو دہشت گردی کہا گیا ہے ۔
کیا ہر تشدد جس سے دہشت پھیلتی ہو کیا اسے دہشت گردی کہا جائے گا ؟ نہیں !! کیونکہ ہم روزہ مرہ میں ایسے ہزاروں حادثات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے دلوں میں کچھ نہ کچھ دہشت پیدا ہوتی ہی ہے ، مگر ان کو دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔اسی طرح آکسفورڈ ڈکشنری میں جو تعریف کی گئی ہے کہ وہ جامع نہیں کیونکہ ہر دہشت گردی مقصود سیاسی مفاد کا حصول نہیں ہوتا ، بلکہ سیاسی اغراض کے علاوہ دیگر مقاصد کے حصول کے لیے بھی دہشت گردی کی راہ اپنائی جاتی ہے۔ خلاصہء کلام یہ ہے کہ ان تمام تعریفات سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ خوف و اہراس کس طریقے سے ہو ، کس درجے میں ہو ، یا کس حد کو پہنچے جسے دہشت گردی سمجھا جائے ۔
دور حاضر کے جدید قوانین میں جن افعال اور حرکات کو دہشت گردی قرار دیا ہے اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ایسی تمام حرکتوں کو سنگین قرار دے کر ان کے مرتکبین کے سخت سزائیں تجویز کیں ، تاکہ کوئی بھی متبع اسلام ان کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکے ۔مثلاً ۔i)کسی معصوم جان کو قتل کرنے کے ارتکاب کی سزا قتل ہے۔کہا کہ :”اے ایمان والو!تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے ”( البقرة ١٧٨)۔ii)زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانا ڈاکہ زنی ، اور امن پسند لوگوں کو خوف زدہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔iii)اورچور کی سزا یہ ہے کہ اسکا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔کہا کہ:” اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا “( المائدة:٣٨)۔توجہ طلب پہلو ہے کہ یہ چوری کیا رازوں کی چوری پر بھی منطبق ہوگی اور اگر ہاں تو وہاں کس کے اور کیسے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔
درج بالا تعریف و تفہیم کی روشنی میں دونوں ہی ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ “دہشت گردی”کے معنی و مفہوم کو اس کی صحیح شکل میں پیش کریں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ دونوں ہی جانب سے یہ ہم آہنگی پائی جاتی ہو کہ وہ “دوسروں”کے مفاد کی خاطر اپنے عوام اور ملک کو مزید ذلیل و رسوا نہ ہونے دیں گے۔نیز عہد کریں کہخطے میں امن و امان قائم کریں گے اور اُن لوگوں پر گرفت کریں گے جو اپنے مفادات کے لیے “ہمیں “استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ توقع ہے اس طرح نہ صرف سربراہانِ ممالک کے درمیان بلکہ عوامی سطح پر بھی آپسی ہمددری اور بھائی چارے کا ماحول پروان چڑھے گا۔
غلط فہمیاںدور اور نفرتیں کم ہوں گی اور یہی وہ سعی و جہد ہوگی جس کے بعد معاشی ،سیاسی اور سماجی تمام ہی میدان میںدور رس نتائج برآمدکرنا آسان ہوجائیں گے ۔ساتھ ہی دونوں ملکوں کے سلگتے مسائل پر بھی ایک بار پھر سے نئے زاویوں کے ساتھ غورو فکر کی مزید راہیں تلاش کی جائیں گی۔تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی