کئی سال پہلے کی با ت ہے کہ ا یک گا ئوں میں ساٹھ سالہ بو ڑھا کسان رہتا تھاوہ چالیس ایکڑ زمین کا مالک تھالیکن بدقسمتی سے اُس کے آگئے پیچھے کوئی نہیں تھا جو بوڑھے کسان کے مرنے کے بعد اُسکی زمین اور جائیداد کا وارث بنتا اور عمر کے اس حصے میں وہ کاشت کاری بھی صیح طریقے سے نہیں کر پاتا تھا اس لیئے گائوں والوں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی زمین بیچ کرپیسہ بنک میں رکھ دے اور سکون سے اپنی باقی کی زندگی گزارے لیکن بوڑھا کسان زمین بیچنے کے لیئے تیار نہیں تھا۔ اس ساری صورتحال کا جب گائوں کے بڑ ے زمیندار کو پتہ چلا تو اُس نے بوڑھے کسان کو اپنے پاس بُلایا اور کہا کہ وہ اپنی ساری زمین اس کے نام کر دے جس کے بدلے وہ اُسکی مناسب قیمت دینے کو بھی تیار ہے ساتھ ہی زمیندار نے دھمکی بھی لگا دی کہ ا گر وہ اُسکی بات نہیں مانے گا تو وہ پھر زبردستی اُسکی زمینوں پر قبضہ کرلے گا اب بوڑھے کسان نے سوچا کہ وہ زمیندار سے مقابلہ تو کر نہیں سکتا اورزمین بھی نہیں بیچنا چاہتا لہذہ اُس نے ایک اسکیم سوچی اور زمیند ار سے کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کی بات ماننے کیلیے تیار ہوں لیکن میر ی ایک شرط ہے کہ ہمارا جو بھی ایگری منٹ ہوگا وہ عدالت میں ہوگا لیکن جب تک میں زندہ ہوں زمین میرے ہی نام رہے گئی میرے مرنے کے بعد زمین آپ کی ہوجائیگی لیکن اس کے بدلے آپ ہر ماہ مجھے پانچ ہزار روپے دیں گئے جس سے میں اپنا روز بسر کرونگا ۔۔۔زمیندار بوڑھے کسان کی باتوں میںآگیا اُس نے سوچا کہ بوڑھا ابھی ساٹھ سال کا ہے پانچ یا سات سال اور زندہ ر ہ لے گا ویسے بھی وہ ہر وقت بیمار رہتا ہے اور دیکھ بھال کے لیئے بھی کوئی نہیںہے اگر میں پانچ ہزار روپے ہر مہینے دو ں تو پانچ سات سالوں میں زمین کی ایک چوتھائی رقم بھی ادانہیں ہوگئی اور بوڑھے کسان کی ساری زمین کا مالک میں بن جائونگا بڑے زمیندار نے اس خوش فہمی کے ساتھ عدالت جاکربوڑھے کسان کے ساتھ ایگری منٹ سائن کر لیا ۔پھر ہر صبح زمیندارکا پہلا کام یہی ہوتا تھا کہ جاکر بوڑھے کسان کو دیکھنا وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ بیس سال گزر گئے زمیندار بوڑھے کسان کو ہر ما ہ پانچ ہزار دیتارہا اب بوڑھا کسان اسی سال کا ہو گیا تھا زمیندارجو ہر روز اُسکے مرنے کی دعائیں کر تا تھا زمیندار کی دعائوں سے بوڑھا کسان تو نہ مر ا لیکن ایک دن بیچارہ زمیندار خود ہی اللہکو پیارا ہوگیا اور پھر زمیندار کے مرتے ہی وہ ایگری منٹ بھی ختم ہو گیا جو کسان اور زمیندار کے درمیان طے پایا تھا بوڑھے کسان کو اُسکی زمین واپس مل گئی اور ہر ماہ پانچ ہزار روپے کا فائدہ الگ سے ہوا۔اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد ہے اُن چند لوگوں کو یہ یاد کروانا جو یہ بھول چکے ہیںکہ صحت یا بیماری ،زندگی یا موت سب اللہکے ہاتھ میں ہے ہم دنیا میں ہونے والے ہر ایک کام کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں لیکن کسی کی زندگی کتنی ہے اور موت کب ہوگی یہ پیشن گوئی کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا اختیا رصر ف اورصرف اللہکی ذات پاک کو ہے۔چند روز قبل صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بیماری کو لیکرلوگوں نے تجزیوں ،افواہوں اور پیشن گو ئیوں کے انبار لگا دئیے جتنے منہ اتنی باتیں کوئی کہہ رہا تھا کہ صدر آصف علی زرداری چند دنو ں کے مہمان ہیں ،کسی نے کہا کہ صدر صاحب اپنا ذہنی توازن کھوچکے ہیں ،اور کسی نے یہ بھی کہا کہ زرداری صاحب کو کوئی بیماری نہیں ہے وہ صر ف میمو اسکینڈل کیس کے خوف سے پاکستان سے بھاگ گئے ہیں اور خاص طور پر جس طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے صدر زرداری کی بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور جس طرح کے الفاظ صدر صاحب کے لیئے استعمال کئیے گئے ہیںایسے نازیبا الفاظ کسی بھی ملک کے صدر کے لیئے استعمال کرنا قابل مذمت ہیںکیا آزاد میڈیا کا مقصد یہی ہے کہ ایک جمہوری صدر کو بُری طرح تنقید کا نشانہ بنایا جائے، زرداری صا حب صدر پاکستان ہیں اور اُ نکے نام کے ساتھ پاکستان کا نام بھی جُڑا ہے اگر کوئی صدر پاکستان کے لیئے نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ پاکستان کے خلاف بات کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کا واحد مخلص سہارا اس وقت میڈیا ہی ہے اور یہ بھی حقیت ہے کہ چند لوگ اس سے ناجائز فائد ے بھی اُٹھا رہے ہیں جس سے اب لوگوں میں یہ تفتیش پا ئی جاتی ہے کہ میڈیا اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ تا لاب میں ایک گندی مچھلی کے ہونے سے پورا تا لاب گندہ ہوجاتا ہے ۔میڈیا میں بھی چند گندی مچھلیاں موجود ہیںاور اگر ان سے جلد چُھٹکارہ نہ پایا گیا تو پھر پولیس ، پٹواریوں ، سیاستدانوں کی طرح لوگوں کا میڈیا پر سے بھی اعتماد اُٹھتا جائیگا۔موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے چار سال مکمل کرنے کو ہے پاکستان کے عوام کی یہ مشترکہ رائے ہے کہ حکومت کو اپنا دورحکومت پورا کرناچاہیے کیونکہ بعد میں انہیں یہ کہنے کا موقع نہ ملے کا وقت سے پہے ہم سے اقتدارچھین لیاگیا اور ہم عوام کو اپنی کارکردگی صحیح طریقہ سے نہیںدکھاسکے اور عوام اس حکومت سے کتنی خوش یا نا خوش ہے وہ آنے والے الیکشن میںواضح ہوجائیگا ۔پاکستان میں موجودہ افرتفری کے پیچھے چند سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے یہ وہ لوگ ہیںجو چار سال تک تو حکومت کے ساتھ شریک ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور اب جب کہ الیکشن قریب آرہے ہیں تو عوام کی ہمدردیاں بٹورنے کے لیئے اور عوام کے سب سے بڑ ے ہمدرد بنتے ہوئے حکو مت کے خلاف جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ میرا ان سیاسی جماعتوں سے یہ سوال ہے کہ پہلے آپ لوگوں کو حکو مت کی بُرائیاںنظر کیوں نہیں آئیںاگر چار سال تک اس حکومت کو برداشت کیا ہے تو ایک سال اور بھی کر لیںاس سے پہلے آمریت کو بھی تو سات سال برداشت کیا ہے خدا کے لیئے غریب عوام پر اور پاکستان پر رحم کریں اب تو معصوم عوام کو بیوقوف بنا نا چھو ڑ دیں صر ف اورصرف اپنی سیاسی پاور دکھانے کے لیئے فضول کے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنا چھوڑ دیں اپنا اورقوم کے پیسے اور وقت کا ضیا ئع نہ کریں۔19جنوری 2011کو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی دبئی سے واپسی نے اُن تما م سیاسی پنڈتوں کو جھوٹا ثابت کردیا جنہوں نے یہ فتوے دئیے تھے کہ صدر زرداری صاحب اب کبھی واپس نہیں آئیں گئے ۔صدر زرداری صاحب کی بیماری اورپاکستان واپسی کی جتنی چنتا پاکستان کی چند ایک سیاسی جماعتوں کی تھی اتنی فکر شاید صدر صاحب کی فیملی اور انکی جماعت کو بھی نہ تھی اور اب جبکہ صدر صاحب پاکستان میں موجود ہیں اور اپنے فرائض بھی انجام دے رہے ہیںا ب کوئی ان دعوے داروں سے جو یہ کہہ رہے تھے کہ صدر زرداری صاحب مُلک چھوڑ کر بھا گ گئے ہیںاُن سے یہ تو پوچھیں کہ اب وہ کیسا محسوس کررہے ہیںاور کیا ۔۔۔ہون آرام ائے ۔۔۔۔۔!!۔ تحریر:کفایت حسین کھوکھر