درویش کا قول ہے کہ بکھری ٹوٹی سسکتی اور شکست خوردہ قوم دوبارہ عروج کا راز پالیتی اگر انہیں دیانت نڈر اور بیباک لیڈرشپ کا رول ماڈل مل جائے۔ احادیث مبارکہ میں درج ہے رب العالمین کسی قوم کے اعمال دیکھر ان پر ویسے حکمران مسلط کردیتا ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا کو اپنے وحشت ناک پنجوں میں جکڑا ہوا ہے مگر لاطینی امریکہ میں سپرپاور اپنا اثر و رسوخ جمانے اور اپنی فرعونی طاقت کا رعب و دبدبہ دکھانے میں ناکام رہی ہے تو کیوبا کے فیڈرل کاسترو کے بعد ویزویلا کے صدرہوگو شاویز ہیں جو امریکی مفادات کی راہ میں چٹان بنکر حائل ہے۔21 ویں صدی میں یہ کریڈٹ سوشلسٹ نظریات کے داعی شاویز کو جاتا ہے جس نے نیویارک میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے الیکشن میں بش کو شیطان کا لقب دیا۔
ہوگو شاویز نے حالیہ الیکشن میں مسلسل تیسری بار صدارت کا ہما اپنے سرباندھا۔ امریکہ اور مغرب نواز طاقتوں ایجنسیوں نے اپنے من پسند امیدوار کی جیت کے لئے ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کا ایکاکروایا تو دوسری جانب ڈالروں کی برسات سازشوں کی بھرمار اور میڈیا وار کی جھنکار پر خاصا وقت برباد کیا مگر وینزویلا کے غیور لوگوں نے سامراجی عزائم کو چکنا چور کردیا۔الیکشن کمشنر تھپے لوسینا کے جاریکردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق 80٪ ووٹرز نے حق راہ دہی استعمال کیا ہوگو شاویز نے54.4٪ اور انکے حریف کیپر پیلس کو44.37٪ ووٹ حاصل کئے۔ شکست کھانے والے امیدوار کیپر پیلس گورنر ہیں۔ مخالفین خاصے پر امید تھے کہ شاویز کا دھڑن تختہ ہوگا کیونکہ ایک طرف ہوگو شاویز نے علالت کے باعث پر جوش الیکشن کمپین نہ چلائی دوسری طرف حریف امیدوار اپوزیشن کا متفقہ نمائندہ تھا۔ شاویزکی جیت کا جشن منانے کے لئے وینزویلا کے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل ائے۔
کاراکس میں صدارتی رہائش کے سامنے عوام کا اژدہام تھا ۔شاویز نے عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی جیت کو سوشلزمکا نتیجہ قراردیا۔منتخب صدر نے وعدہ کیا کہ وینزویلا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے قبرستان ثابت ہوگا۔ شاویز کو کینسر ہوگیا تھا وہ علیل تھے تاہم انہوں نے اپنے دیوانوں کو خوش خبری سنائی کہ وہ اب روبہ صحت ہیں۔ شاویز پچھلے12 سالوں سے وینزویلا کے صدر ہیں۔وہ سامراجی سوچ رکھنے والے ہر ملک پر تنقید کرتے ہیں۔ شاویز نے الیکشن کے دوران قوم سے اپیل کی تھی کہ بولیوارین انقلاب کے لئے اسے 6 سال کی ضرورت ہے۔ عوام نے شاویز کی اپیل پر اسکے بیلٹ بکسوں کو ناک تک بھردیا۔ وہ کئی مرتبہ بیانگ دہل کہہ چکا ہے کہ دنیا امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو کیونکہ امریکہ سرمایاداریت کا چمپین ہے۔وینزویلا تیل پیدا کرنے والے پہلے8 ملکوں میں شامل ہے۔شاویز نے فراست بصارت سے غیر ملکی کمپنیوں اور گورے سرمایہ داروں کے وحشی جبڑوں سے ائل انڈسٹری کو چھڑوایا اور پھر اسے قومیا لیا گیا۔
شاویز نے تیل کی دولت کو تعلیم صحت تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ کی۔ ہوگواپنی لازوال کامیابیوں سے عوام کے دلوں میںرچ بس چکا ہے۔ شاویز نے اپنی جیت پر امریکہ کے خلاف جدوجہدجاری رکھنے کا اعادہ کیا۔ مغربی میڈیا نے شاویز کو بدنام کرنے کی خاطرمربوط قسم کی پروپگنڈہ وار پچھلی ایک دہائی سے شروع کر رکھی ہے کہ شاویز کو کینسر ہے اور اب اسکی صحت اس قابل نہیں کہ صدارت کا بوجھ اٹھا سکے۔ میڈیا نے شاویز کو کبھی مطلق العنان حکمران کا نام دیا تو کبھی جابر اور ڈکٹیٹر۔صدر کو کبھی دہشت گرد ہونے کا لقب دیا توکبھی اسکا شمار دنیا کے بڑے منشیات فروشوں کی فہرست میں ڈالا گیا۔ مغرب نے اقوام عالم میں وینزویلا کی گھناوئنی منظر کشی کی کہ یہ ایک پرتشدد ملک ہے جہاں لاقانونیت جرائم سمگلنگ کرپشن سیاسی انتشار زوروں پر ہے۔ یہ پر تشدد اور غیر محفوظ ملک ہے۔ مغربی میڈیا کی سفاکانہ وار کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے 5 اکتوبر کو شاویز کی قیادت میں عظیم الشان ریلی نکالی گئی. عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے اسکی ہیٹرک پر نہ صرف جیت کی مہر ثبت کردی بلکہ وینزویلا کے غیور عوام نے امریکہ اور مغربی ممالک کو زلت امیز شکست سے دوچار کیا۔
Venezuela
صہیونیت نواز مغربی میڈیا کو وینزویلا میں شاویز دور میں ہونے والی خوشحالی معاشی اور صنعتی ترقی کی بھنک نہیں پڑی۔ ہوگو شاویز کی صدارت کو تہہ خاک کرنے کی خاطر امریکہ اور اسکے اتحادی مغربی ممالک نے درجنوں جتن کئے۔ سنڈی sheehan کی لکھی گئی کتاب انقلابA LOVE STORY میں مصنف لکھتا ہے کہ افسوس ہے کہ امریکہ نے ہوگو شاویز کو کئی مرتبہ ہلاک کرنے کی خباثت کی۔ امریکہ وینزویلا میں انتشار پیدا کرنے اور این جی اوز کے توسط سے انتظامی و معاشرتی اور سیاسی کشا کش کو ہوا دینے کے لئے ہر سال40 ملین ڈالر خرچ کرتا ارہا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ایران کی طرح وینزویلا نے اپنے حقوق سے دستبرداری سے انکار کردیا۔ دنیا بھر کے باضمیر انسان وینزویلا کی عوام کو سلیوٹ کرتے ہیں کہ وہ اپنے دیوقامت محبوب رہنما ہوگوشاویز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ڈٹی رہی۔ ہوگو شاویز نے درویش کے ابتدائی جملے کو درست ثابت کردیا کیونکہ ہوگو شاویز کی بارہ سالہ محنت شاقہ نے جہاں پسماندہ و درماندہ عوام کو خوشحالی و ہریالی کے تحائف دئیے تو وہاں شاویز نے دور حاظر کے فرعون کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرکے ثابت کردیا کہ ہر دور میں یذیذ یت اور حسینیت کے علمبردار موجود ہوتے ہیں دونوں کی جنگ میں فتح حسینیت کی ہوتی ہے اور یذیذیت کو عبرت ناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیا ہوگو شاویز کی مسلسل تیسری جیت یذیذیت فرعونیت کی شکست نہیں۔