سیاست اور روایت سے ہٹ کر کچھ تلخ مگر سچی با تیں کرنے کو آج جی چاہ رہا ہے مجھے معلوم ہے کہ موجودہ زمانے میں حق سچ کی بات کرنا گویا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے مگر کیا کیا جائے ہم بھی تو مجبور ہیں کہ بجائے حق کو ملفوف پیرائے میں بیان کیا جائے ،کھو ل کھول کے بیان کرنا ہمیں کچھ زیادہ اچھا لگتا ہے ،مقدس بار گاہوں کی دہلیز پر آئے روز ہونے والے بم دھماکے ،تعصب اور لسانیت کی بڑھکتی آگ کے شعلے ،ہسپتالوں اور تھانوں میں بے رحم موت کا بہیمانہ رقص، سیاست دانوں کی جگت بازیاں ،آتش بازیاں ،رنگ بازیاں ،بارود کے دھوئیں میں گم اجسام ، نخوت کی دھول سے اٹے چہرے ، ربڑ سٹیمپ اسمبلیاں۔
کرپشن سے معمور ایوان ،ذہنی غلام ،روشن خیالی کے کھنکتے گھنگرو،ترقی کے کھوکھلے دعوے، ٹوٹی سڑکیں ،بہتی نالیاں ،ابلتے گٹر ،دھول اڑاتی شاہرائیں ،ناجائز اور بے قابو تجاوزات ،لوڈ شیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا عذاب ،مردہ جانور کھلانے والے قصاب ،شعلہ بیاں مقرر ،دیہاڑی دار محرر ،آتش فشاں خطیب،فتویٰ فروشی کی مشینیں ،جا گیر داروں کے قبضے میں بے چارے ہاریوں کی ہزاروں ایکڑ زمینیں ،علمی ڈکیت ،پکی قبریں ،کچے ذہن ،رہبر کے روپ میں رہزن کا بھیس ، ہرص و ہوس کے مارے ،سارے کے سارے ،لاغر امید ،بے رحم سو سائٹی ،دیہاڑی دار نقیب ،جعلی ادیب ، ڈبہ پیر ،جاہل مرید ،کھوکھلے فقیر ،بے حضور امام ،بے وضو مقتدی ،نیم حکیم اوران پڑھ ملا،حرام کمائی سے بیت اللہ کانا مکمل طواف ،نا پاک ہونٹوں سے حجر اسود کے بوسے ،گنبد خضراء کے سامنے مگر مچھ کے آنسو ،خواہشات کے اسیر ،دنیا کے فقیر ،,,ہذا من فضل ربی ،،کے تحت امیر،جگہ جگہ ناکے ،آئے روز دھماکے ،بستی بستی فاقے ،نا پختہ ذہن کے کا کے ،دودھ کی رکھوالی پر معمور بلا ،وارثین منبر و محراب سے گلہ،گلی گلی کمر شل ازم کے سانچے میں ڈھلی دانش تقسیم کرتی حکمت گا ہیں۔
مگر پھر بھی تہذیب مغرب کی یلغار ،اللہ اکبرکی صدا بلند کرتے بلند و بالا مینار ،مگر کردار کے نہایت ہی بونے لوگ ،ماتھے پر بد نمائی اور خود نمائی کے داغ سے بنے محراب ،مگر پیشانیاں سجدوں کی لذتوں سے نا آشنا ،زبان پر قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تقریریں ،مگر تاثیر کی حلاوتوں سے کو سوں دور،موٹی گردنیں ،چھوٹی شلواریں ،نکلی ہوئی توندیں ،وزنی کوپر ،الجھے بال ،گھنی اور بے ربط داڑھیاں ،ننگی ساڑھیاں ،,,ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ،،کی چھتر چھائوں تلے ملاوٹ زدہ چیزیں ،,,یہاں گندگی پھینکنا منع ہے ،، لکھا ہونے کے با وجود جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر۔
یہاں تھوکنا اور پیشاب کرنا منع ہے ،، مگر اسی جگہ غلاظت کا انبار ،,,رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ،،مگر اسی حدیث کے زیر سایہ رشوت کا گرم بازار ، خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی نا خواندگی ،گردن میں پیوست 6،6انچ کے موٹے سریے ، آنکھوں میں بے حیائی اور بے شرمی کا کاجل ،زبان پر غلیظ گالیوں کا غلاف ،بظاہر قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پیار ،مگر عملی تعلیمات اور سنت سے بیزار ،دکھاوے کی تسبیحاں ،ریاکاری کے سجدے ،خضوع و خشوع سے یکسر محروم رکوع،بندگی سے خالی قیام ،غلیظ افکار ،کھوکھلے کردار ،مصنوعی پیار ،منافقت ہی منافقت ،نفرت ہی نفرت ،جھوٹ ہی جھوٹ ،فریب ہی فریب ،عارضی سہارے ،جس نے بھی کیا ان سب باتوں پر عمل اس کے ہو گئے وارے نیارے ،شکل مومناں ،کرتوت کافراں ،ممی ڈیڈی این جی اوز کی بھر مار، ہم سب کو پڑ رہی ہے اس لیے با ر بار مار ،خدمت انسانیت کے نام پر قائم وسیع نیٹ ورک ،مگر انسانیت پھر بھی نان جویں کی محتاج،نت نئی کھمبیوں کی طرح اگتی سیاسی جماعتیں ،نالائق اور کرپشن کے چیمپیئن سیاستدانوں کی روز روز وضاحتیں ،جگہ جگہ پھرتی لوٹے اور مصلے اٹھائی جماعتیں ، سینکڑوں برادریوں میں منقسم ذاتیں ،مگر پھر بھی جگہ جگہ قباحتیں ،ناقص منصوبہ بندیاں ،بے محل تک بندیاں ۔
یہ ہے ایک اسلامی معاشرے کی دھندلی سی تصویر ،اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب تک ہم اپنے آپ کو اں غلاظتوں اور کثافتوں سے پاک نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارے کردار اور افکار میں پختگی پیدا نہیں ہو سکتی ،جسٹس امیر علی کی لکھی گئی کتاب میں درج وہ خوبصورت اور فکر انگیز جملہ مجھے ابھی بھی اچھی طرح یاد ہے کہ,,مکہ اور مدینہ کی سر زمین پر خراماں خراماں چلتے عظمت و کردار کے سانچے میں ڈھلے صحابہ کرام کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ قدسیوں کی ایک مقدس اورنورانی جماعت ہے جو ابھی ابھی آسماں سے اتری ہے ،، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مقدس ہستیوں کی تر بیت اس بلند و بالا کردارکی حامل مبارک ہستی نے کی تھی کہ جس کے بارے میں کتاب انقلاب قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ,,لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ،،آج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پاکیزہ اور مصفیٰ و مزکیٰ سیرت کو اپنا کرتحت الثریٰ کی گہری کھائی سے نکل کر اوج ثریا کے منصب پر فائز ہوا جا سکتا ہے۔