امت مسلمہ پر یہ دور بھی آنا تھا اور کیوں نہ آتا کہ اس کی پیشنگوئی تو خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی تھی جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کی دوسری قومیں ایک دوسرے کو تم پر جھپٹ پڑنے کی دعوت دیں گی جس طرح کھانا دستر خوان پر چنے جانے کے بعد خاتون خانہ مہمانوں کو دعوت طعام دیتی ہے۔ فلسطین کے مسئلے کو ناسور کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ امن کے قیام کے لئے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور فلسطینیوں کی لاشیں بھی گرتی رہتی ہیں۔ کشمیر کی شہ رگ سے مسلسل خون رس رہا ہے۔ انتفاضہ بھی جاری ہے اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی بھی۔ عراق پر پہلے پابندی لگائی گئی لاکھوں بچے ”بن کھلے مرجھاگئے”۔ پھر حساس اسلحہ کی موجودگی کا پروپگنڈا کرکے اس پر حملہ کردیا گیا۔ لاکھوں افراد شہید ہوچکے ہیں۔ بد امنی ہے کہ ختم نہیں ہوتی اور ہر روز لوگوں کے مرنے کی اطلاع ملتی رہتی ہے۔ نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر اور سرزمین افغانستان پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اور اب پاکستان میں، جس کے حکمرانوں نے افغانستان کی تباہی کے لئے اپنا کاندھا پیش کیا تھا، مسلسل ڈرون حملے اور اب نیٹو کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ حملے ہورہے ہیں۔ مختصر یہ کہ امت مسلمہ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک کر چور ہوچکی ہے۔ دشمنان دین امت کی اس تباہی و بربادی پر بھی مطمئن نہیں اور اب امت کے افراد کے ایمان پر حملے ہورہے ہیں۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے استہزائیہ خاکوں کا سلسلہ جاری ہے۔
قرآن کریم کی توہین کا معاملہ گوانٹا نامو بے سے شروع ہو ا اور ایک پادری نے زیرو گرئونڈ پر9 ستمبر کو قرآن کریم کو سر عام جلانے کی لوگوں کی دعوت دی تھی۔یہ سب امت مسلمہ کے جرم ضعیفی کی سزا ہے جو اس کو مل رہی ہے۔ ہم مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت پر ہم نے احتجاج کیا۔ قرآن کی توہین پر ہم نے احتجاج کیا۔ ڈاکٹر عافیہ کو دی گئی سزا پر ہم احتجاج کر رہے ہیں۔ بابری مسجد کے بارے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر احتجاج ہوا۔ لیکن ان احتجاجوں سے کوئی مثبت نتیجہ بھی برآمد ہوا؟ نہیں! یقینانہیں۔ دشمنان دین کو ہمارے احتجاج کی کوئی پروا نہیں۔ بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جس طرح پرانے زمانے میں ظالم بادشاہ انسانوں کو شیر کے پنجرے میں ڈال کر ان کی چیر پھاڑ سے لطف اندوز ہوتے تھے، آج دشمنان دین بھی ہمارے نالہ و شیون سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ احتجاج میں بھی قوم کے اتحاد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر جماعت، ہر ادارہ اور ہر گروہ الگ الگ احتجاجی مظاہرہ کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر منظم انداز میں مظاہرے کیے جائیں تو لوگوں کے جذبات اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
ایسا کیوں نہ ہوا کہ معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ احتجاج کرتے۔ تمام سیاسی جماعتیں، تمام مذہبی جماعتیں، تمام دینی ادارے، تمام طلباء تنظیمیں، تمام سماجی تنظیمیں او ر تمام پروفیشنل تنظیمیں وغیرہ اپنے اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوکر احتجاج کرتیں اور کم از کم مہینے میں ایک بار یہ ساری تنظیمیں اکٹھی ہوکر عوام کو اپنے ساتھ ملاکر احتجاج کرتیں اور ایسا ہر مسلم ملک میں ہوتا تو شائد اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ برآمد ہوتا۔ ہمارے یہ جدا جدا احتجاجی مظاہرے ہماری تذلیل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ہم اس طرح اپنے اتحاد کا مظاہرہ کریں تو شائد کہ وہ جو ایک خواہش ہر مسلم ملک میں نظام خلافت کے قیام کے لئے موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس خواہش کی تکمیل کی کوئی صورت پیدا فرمادے۔ جب تک مسلم دنیا خلافت کے قیام پر متحد نہیں ہوتی، دشمنوں کی ریشہ دوانی کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا۔ہمارے دشمن اسی طرح ایک ایک مسلم ملک کو نشانہ بناتے جائیں گے۔ پہلے عراق،پھر افغانستان، اس کے بعد پاکستان اور ایران علیٰ ہٰذا القیاس۔ہمارے دشمن یہی تو چاہتے ہیں کہ ہم کبھی متحد نہ ہوپائیںکیونکہ اس سے نظام خلافت کی راہ ہموار ہوگی اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا نظام ان کے نظام کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ نظام خلافت کا ہو ا ان کے سر پر سوار ہے۔ جبھی تو بش نے بھی ایک بار اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مسلمان خلافت کا نظام لانا چاہتے ہیں۔ نظام خلافت ہی کی ایک جھلک انہیں طالبان حکومت کے دور میں نظر آئی تھی اور اس کے خوف نے انہیں افغانستان پر حملے پر اکسایا تھا۔
یاد رکھیں کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل قیام نظام خلافت میں مضمر ہے اور اس نظام کو قیامت سے قبل پوری دنیا پر نافذ ہونا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا جز و ہے کیونکہ اس کی پیشنگوئیاں الصادق والمصدوق حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نظام کے قیام کی جدوجہد میں کون اپنا کردار کتنے خلوص و اخلاص کے ساتھ اداکرتا ہے۔نظام خلافت جتنا ہماری دنیوی فلاح کے لئے ناگزیر ہے اتنا ہی یہ ہماری اخروی نجات کے لئے لازم ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں نظام خلافت کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین