مقبوضہ کشمیر : (جیو ڈیسک) بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے سترہ برس قبل چھ یورپی سیاحوں کے اغوا کے بارے میں بھارتی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔سنہ انیس سو پچانوے میں جنوبی کشمیر میں کوہ پیمائی کے لیے آئے چھ سیاحوں کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کیا تھا۔ ان چھ میں سے ایک شخص بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا جبکہ ایک کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ باقی چار سیاحوں کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ سیاحوں کے اغوا کی ذمہ داری ایک غیرمعروف گروپ الفاران نے قبول کی تھی اور پولیس کی کرائم برانچ نے تفتیش کے بعد کیس کی فائل بند کر دی تھی۔
حکومت کو اس معاملے کی دوبارہ تفتیش کا حکم منگل کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے دائر ہونے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران کیاگیا۔ یہ درخواست انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقامی رضاکاروں نے ایک کتاب دی میڈو کی اشاعت کے بعد دائر کی تھی۔ اس کتاب میں انکشاف کیاگیا ہے کہ اغوا کا یہ منصوبہ بھارتی فوج کے ساتھ کام کرنے والے عسکریت پسندوں نے بنایا تھا۔ امریکی طباعتی ادارہ ہارپر پریس سے شائع شدہ یہ کتاب ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک نے طویل تحقیق کے بعد تصنیف کی ہے۔
عرضی کی سماعت جسٹس جاوید کاووسہ اور جسٹس رفیق فدا پر مشمل انسانی حقوق کمیشن کے ڈویژن بینچ نے کی۔ جسٹس رفیق فدا نے کہا چونکہ کتاب کا حوالہ دے کر کمیشن میں شکایت درج کی گئی ہے۔ ہم حکومت سے تمام معلومات لیں گے اور اس معاملہ کی باقاعدہ تفتیش کی جائے گی۔ سماعت کے دوران موجود انسانی حقوق کی تنظیم کولیشن آف سِول سوسائیٹیز کے سربراہ پرویز امروز نے ذرائع کو بتایا: یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس واقعہ سے کشمیر بدنام ہوگیا اور مغربی ممالک نے سیاحوں کی کشمیر آمد کو خطرناک قرار دیا۔ لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اصل میں ماجرا کیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما طویل عرصہ سے مسئلہ کشمیر میں امریکہ اور یورپ کی مداخلت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن خرم پرویز کہتے ہیںکہ حکومت ہند کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کشمیر کی تحریک کو مغرب مخالف قرار دیا جائے، اگر واقعی الفاران کا منصوبہ سرکاری تھا تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے۔