یورپی یونین کیوزرائے خارجہ کا دوروزہ اجلاس جمعے کو پولینڈ کیشہرسوپوت میں شروع ہوا، جِس میں کئی ایک مشترکہ موضوعات پرگفتگو ہوگی، جِن میں مشرقِ وسطی امن عمل اورشام کے خلاف تعزیرات لاگو کرنا شامل ہیں۔اِس ماہ کے اواخر میں فلسطینی ریاست کیمعاملے پراقوام متحدہ میں ایک اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ یورپی یونین کے27رکنی ممالک کوشاں ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کیاجلاس میں ایک مشترک مقف اختیار کریں۔ فرانسسی صدر نکولا سارکوزی نے، جو کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیحامی ہیں، یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ اتفاقِ رائے پیدا کریں تاکہ وہ ایک ہی آواز میں اختیار کر سکیں۔ہرچند کہ رکن ممالک میں سے کئی ایک مسٹر سارکوزی کے مقف کی حمایت کرتے ہیں،لیکن اِس طرح کے اتفاقِ رائے کا حصول مشکل ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام ِمتحدہ میں فلسطینیوں کی اِس طرح کی کوشش کو ویٹو کردے گا، جب کہ جرمنی اور اٹلی دونوں اِس بات کے مخالف ہیں۔ اِس کے برعکس، وہ عرب اسرائیلی امن مذاکرات کی طرف لوٹنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔یورپی یونین کی پالیسی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے کہا کہ امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کے حوالے سے یورپی ممالک متحد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بالآخر ان کے پیشِ نظر دو ریاستی حل کا ہدف ہے ، جِس میں ایک محفوظ اور مستحکم اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ اور مستحکم فلسطینی ریاست کا وجود ہو۔اجلاس میں شام میں جاری تشدد کو بند کرانیکے طریقوں پر گفتگو مرکوز رہے گی۔ جمعے کو ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا کہ وہ شام کی تیل کی درآمدات پر پابندیاں لگارہا ہے ، جس کے باعث صدر بشار الاسد کی حکومت کو روزانہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوگا جو کہ وہ یورپی یونین کو تیل کی فروخت سے حاصل کرتا ہے۔