یوٹیلٹی الاؤنس، تفریقات برائے سرکاری ملازمین

Sindh Government

Sindh Government

خیالات اور رائے کا اظہار کرنا اسے دوسروں تک پہنچانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور چونکہ ہر شخص کو آزادیٔ رائے حاصل ہے جس میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے ۔ قانون عوام کی مرضی اور خواہش کا اظہار ہے ، قانون سب کے لئے ایک ہوگا اور تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہونگے تب ہی یہ معاشرہ اور یہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔اسی لیئے میں نے اس چبھتے ہوئے موضوع کا انتخاب کیا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں عام لوگوں کی بات ہے۔

سندھ گورنمنٹ ، حکومتِ پاکستان کا ایک معتبر ادارہ مانا جاتا ہے بلکہ معتبر ادارہ ہے۔اور اس پر ہم سب متفق بھی ہیں کہ ہمارا صوبہ اور اس کے تمام ادارے ہمارے ہیں اور اس کے تمام فیصلے بھی عوام الناس کی بھلائی کیلئے کئے جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسے بل آرڈر بھی پاس کر دیئے جاتے ہیں جس میں تفریق کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی یوٹیلٹی الائونس بھی ہے جس کا چرچا چند روز پہلے تک میڈیا میں سلائیڈ اور خبروں کے ذریعے چل رہا تھااور اخباروں کی زینت بھی بن چکا تھاکہ سندھ کہ سرکاری ملازمین کو جنوری 2012 سے مہنگائی الائونس (یوٹیلٹی الاؤنس) دیا جائے گا۔ سندھ کے سرکاری ملازمین تو جیسے پھولے نہیں سمارہے تھے کہ چلو جناب! کچھ تو حکومتِ وقت نے اس مہنگائی کے مارے ملازمین کیلئے کیا ، ان کے رخسار پر تو اس وقت تک خوشیاں بکھرتی نظر آتی رہیں جب تک کہ مطلوبہ آفس آرڈر سندھ گورنمنٹ نے جاری نہیں کر دیا۔

یہ کیا! لیٹر تو 02مارچ 2012ء کو بحوالہ سیکریٹری فنانس حکومتِ سندھ نے جاری کر دیا۔ مگر اس لیٹر پر صرف اور صرف سندھ سول سیکریٹریٹ اور پروونشل اسمبلی سندھ کے ملازمین ہی کو اس الائونس کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اور وہ بھی جنوری 2012ء سے یہ الائونس لاگو کر دیا گیا۔ یہ وہ خوش قسمت ملازمین سندھ ہیں جنہیں حکومت نے نواز دیا اور بقیہ اداروں کے سرکاری ملازمین کو ڈانٹ دیا گیا۔ ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گیا جب یہ خبر ان ملازمین پر بجلی بن کر گری کہ انہیں یہ الائونس نہیں دیا جا رہا۔ کسی نے کچھ پروگرام ترتیب دے رکھا تھا تو کسی نے اپنے بجٹ کو پروموٹ کرنا شروع کر دیا تھا کہ اب اس طرح سے گھر کا خرچہ چلایا جائے گا۔ چند افراد ملازمین سے اس سلسلے میں ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ کتنی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔اور اس سلسلے میں اب ان سب لوگوں کی نظر صرف اور صرف معزز ، معتبر گورنر سندھ جناب عشرت العباد خان صاحب کی طرف لگی ہوئی ہے کہ کب وہ اس سلسلے میں کوئی مثبت اقدام اٹھائیں اور یہ فائدہ جو مخصوص لوگوں کو پہنچایا گیا ہے اس پر سب ملازمینِ سندھ کو بھی دسترس حاصل ہو۔

meeting

meeting

سندھ میں ان دو دفاتر میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی طرح بقیہ اداروں کے ملازمین بھی جو کہ سرکاری کہلاتے ہیں اس میں بہت سارے ادارے ہیں کس کس کا نام تحریر کروں غالباً اسی طرح دلجمعی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔ اگر ان بیچاروں پر بھی حکومت مہربان ہوجاتی توکیا ہی اچھا ہوتا۔ اس طرح تفریق کرنا اور سندھ کے سرکاری ملازمین کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا (کہ یہ اعلیٰ ہے اور وہ نچلے درجے کا ہے)سراسر زیادتی اور تکلیف کا باعث ہے۔صرف سندھ سول سیکریٹریٹ اور پروونشل اسمبلی سندھ کے ملازمین کے گھروں کا چولہا ہی جلایا جا رہا ہے اور بقیہ اداروں کے ملازمین کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا کرنے کی یہ مذموم کوشش کی گئی ہے جس سے ان ملازمین میں افرا تفری ہی پھیل سکتی ہے جنہیں اس الائونس سے محروم رکھا گیا ہے۔

امام عدل و حریت خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی جرأت و بہادری ، عدل و انصاف اور شاندار کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ ان کے دور میں روایت ہے کہ مسلمان اس قدر خوشحال ہو گئے تھے کہ وہ زکوٰة دینے کیلئے ” مستحق زکوٰة ” تلاش کرتے لیکن ان کو زکوٰة لینے والا نہیں ملتا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں کو اُٹھ کر گشت کیا کرتے تھے اور سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے اور لوگوں کے مسائل و شکایت دور کرتے۔ یہ ہے ہماری خلافتِ راشدہ اور ایسے ہوا کرتے تھے خلیفۂ وقت کاش کہ ہمارے حکمرانوں میں بھی ایسی سوچ اور ایسا جذبہ پیدا ہو جائے جس سے کہ کسی کے حقوق سلب نہ ہو سکیں ہر کسی کو اس کا جائز حق دے دیا جائے تب ہی جا کر ہمارا یہ پیارا ” اسلامی جمہوریہ پاکستان ” ترقی، خوشحالی و شادمانی کی منزلیں بخوبی طے کرسکے گا۔

 Ishrat Ul Ibad

Ishrat Ul Ibad

خلاصہ بحث تو اس کا صرف یہی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیئے جائیں اور تمام سندھ کے ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور جس طرح دو شعبوں کے ملازمین کو یہ الائونس دیا گیا ہے اسی طرح جلد از جلد بقیہ رہ جانے والے تمام ملازمین کیلئے بھی یہ خوشخبری کا لیٹر جلد جاری کر دیا جائے۔ اس سے ان تمام ملازمین کی دلجوئی بھی ہو جائے گی اور ان کے گھروں کے چولہے بھی جلتے رہیں گے۔ اور اس سے بڑا فرق تو حکمرانوں کو یہ ہوگا کہ لوگ جو چار سال سے مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پِس چکے ہیں وہ پھر سے شاید ان ہی کی طرف دیکھنا شروع کر دیں جن کو بھولے ہوئے لگتا ہے زمانہ بیت گیا۔اس آخری جملے کی سمجھ شاید کسی کو آئے یا نہ آئے مگر اربابِ اختیار اس جملہ کَسی کو خوب سمجھ رہی ہے۔تحریر :محمد جاوید اقبال صدیقی
E-mail: jawediqbal_1@yahoo.com