رام پور:(جیوڈیسک) بھارت کی ریاست اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ اترپردیش کے شہر رام پور میں انتخابی اہلکاروں نے خبررساں ادارے کو بتایا ہے کہ ہفتے کو ہونے والے ساتویں اور آخری انتخابی مرحلے میں تقریبا باسٹھ فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بعض دیہی علاقوں میں چھ بجے تک ووٹنگ جاری رہی۔ اترپردیش میں آخری مرحلے کی ووٹنگ کا آغاز سست رہا تھا لیکن بعدازاں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ آخری مرحلے میں اترپردیش کے دس اضلاع کی ساٹھ نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ اس مرحلے میں مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سمیت مجموعی طور پر نو سو باسٹھ امیدوار میدان میں تھے جبکہ ایک کروڑ اسی لاکھ سے زیادہ ووٹرز نے ان امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیا۔اس مرحلے پر بھی سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ بریلی، رام پور، مرادآباد اور پیلی بھیت جیسے انتخابی حلقوں میں اضافی پولیس اہلکار تعینات تھے۔ رام پور میں موجود نامہ نگارکے مطابق صبح سات بجے سے ہی پولنگ مراکز پر لوگوں کا رش نظر آنے لگا تھا۔ پولنگ مراکز پر صبح سے ہی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں اور ووٹ ڈالنے والوں میں خواتین کی قطاریں کافی لمبی دکھائی دیں۔
رام پور سے رکن پارلیمان اور اداکارہ جیہ پرادا بھی اپنا ووٹ ڈالنے آئیں۔ ان کا کہنا تھاہمارا بنیادی مقصد ملائم سنگھ یادیو کو حکومت بنانے سے روکنا ہے۔ہفتے کو گوا اسمبلی کی چالیس نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے۔گوا میں دو سو پندرہ امیدوار میدان میں تھے جن میں سے چوہتر آزاد امیدوار ہیں۔ یہاں اہم مقابلہ کانگریس، این سی پی، بی جے پی اور ایم جی پی کے درمیان ہے۔انتخابی کمیشن کے اہلکار ایس وائی قریشی نے بتایا ہے کہ گوا میں پولنگ کی شرح اکیاسی فیصد رہی ہے۔ایس وائی قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب، گوا، اترپردیش، اتراکھنڈ، اور منی پور میں سے سب سے کم ووٹنگ منی پور میں ہوئی ہے۔ باقی ریاستوں میں ووٹنگ کی شرح گزشتہ سالوں سے بہت بہتر رہی ہے۔ جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے ہیں، ان میں گوا اور منی پور بھی شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ دلچسپی اتراکھنڈ، پنجاب اور اتر پردیش کے نتائج میں ہے جن سے وفاقی سیاست کی تصویر بدل سکتی ہے۔اتر پردیش کی تمام چار سو تین سیٹوں پر چار رخی مقابلے ہوئے ہیں۔ انتخابی جائزوں میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ حکمراں بہوجن سماج پارٹی کو سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے کافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے اور ملائم سنگھ یادو اور ان کے بیٹے اکھیلیش سگنھ کی قیادت والی سماجوادی پارٹی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ لیکن مبصرین یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ اترپردیش کی سیاست کے بارے میں کوئی بھی پیشن گوئی کرنا خِطرے سے خالی نہیں ہے اور اس کی مثال گزشت انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملی تھی جب وزیر اعلی مایاوتی نے تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔لیکن زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی دو سب سے بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں گی۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوگا کہ اترپردیش کے مسلمانوں نے کس کے حمایت کی ہے کیونکہ انہیں اپنی طرف مائل کرنے کے لیے بی جے پی کے علاوہ سبھی جماعتیں بڑے بڑے وعدے اور دعوی کررہی تھیں۔