یہ اور بات کہ خود کو بہت تباہ کیا

promise

promise

یہ اور بات کہ خود کو بہت تباہ کیا
مگر یہ دیکھ ترے ساتھ تو نباہ کیا

عجب طبیعت درویش تھی کہ تاج اور تخت
اسی کو سونپ دیا اور بادشاہ کیا

بساطِ عالم امکاں سمیٹ کر اس نے
خیالِ دشت تمنا کو گرد راہ کیا

متاع دیدہ و دل صرف انتظار ہوئی
ترے لئے تری آمد کو فرش راہ کیا

زمیںپہ جس نے جھکا دی ہیں آسماں کی حدیں
اسی نے خاک نشینوں کو کج کلاہ کیا

بجز خدا میں کسی کو جواب دہ تو نہیں
سو میں نے اپنی خاموشی ہی کو گواہ کیا

سلیم اس نے اندھیروں سے صبح کرنی تھی
سو دن کو دن ہی رکھا رات کو سیاہ کیا

سلیم کوثر