برصغیر کے عظیم بادشاہوں میں سلطان محمود غزنوی ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے ایک مرتبہ اپنے ایک غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر ایک جملہ لکھ دو کہ میں اسے خوشی میں پڑھوں تو غمگین ہو جائواور غمی میں پڑھوں تو خوش ہو جائوں ۔ تو غلام ایاز نے اس انگوٹھی پر لکھ دیا کہ “یہ وقت بھی گزر جائے گا ” غلام ایاز نے یہ جملہ لکھ کر بادشاہ وقت سلطان محمود غزنوی کو ایک عظیم مشورہ دیا۔سلطان محمود غزنوی نے ہمیشہ اس جملے کو اپنی زندگی خوشی اور غمی کے وقت کو یاد کیا مگر بعدازاں یہ جملہ صرف جملہ ہی رہ گیا۔
بعد میں آنیوالی نسل نے اسے نظر انداز کر دیا ہے ۔ درحقیقت انسان زندگی میں دو ہی قسم کے لمحے ہوتے ہیں ۔ایک خوشی کا دوسرا غمی کا لمحہ ۔ یہ زندگی میں اعمال سے تعلق رکھتا ہے ۔انسان کا کھانا پینا ، سونا ، رہنا ،جاگنا، گھومناتمام تر اعمال خوشی یا غمی کے ساتھ گزرتے ہیں ۔انسان جب غم میں ہوتا ہے تو غمگین سے خوشی کی طرف آنے کے لئے ہر وہ کام ضرور کرتا ہے جو اس کی بس میں ہوتا ہے ۔ کبھی کوئی بہت اچھا نیک عمل کرکے خوشی کی طرف گامزن ہوتا ہے تو کوئی بیوقوف غلط و گناہ جیسے کام کرکے خود کو وقت تسلی دینے کے لیئے گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
اس بات سے منہ موڑنا بیوقوفی ہے کہ وقت اپنی وقت سے قبل ہر گز نہیں آتا نہ ہی وقت اپنی وقت کے بعد آتاہے وقت تو وقت مقرر پر ہی آتاہے۔وقت ایسا عمل ہے جیسے حقیقت میں خرید کر اپنے طور طریقے سے چلانا ناممکن ہے ۔ہر انسان کا الگ الگ وقت ہوتاہے ۔کسی کیلئے خوشی کا وقت ہوتاہے اور کسی کے غمی کا وقت ہوتاہے ۔انسان کی زندگی میں خوشی اور غمی سے تبدیلی بہت آتی ہے کچھ لوگ غمی میں رہ کر اکثر گمراہی کی طرف جاتے ہیں پریشانی ہی پریشانی صبر کے بجائے جلدبازی کے فیصلوں کی وجہ غموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے غم میں انسان خود کو ضرور بھولتا ہے مگر اپنے اللہ کو بھو ل بھول کر یاد کرتا ہے ۔ کچھ لوگ خوشی میں اپنے اردگرد کے ماحول سے گم سم ہوجاتے ہیں ۔اپنے عزیز واقارب کو بھول جاتے ہیں خود کو بالا تر سمجھ کر غرور و تکبر کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں جس سے انسان گمراہ ہوجاتا ہے۔
دونوں صورتوں میں انسان اپنی حقیقت بھول جاتاہے ۔روزقیامت کو بھول کر اللہ کے سامنے سجدے ،جھکنے ،عبادت ،حقوق اللہ ، حقوق العباد اور حقوق الوالدین بھول جاتا ہے ۔حقیت میں مایوسی گناہ ہے تو صاف واضع طور پر بتایا ہے کہ پریشانی میں انسان مایوس ہو جاتا ہے اور بالا تر سمجھ کر گمراہ ہو جاتا ہے دونوں غیر اسلامی اعمال ہیں۔اسلام میںانسان کو اپنی بسات کو نہیں بھولنے کا حکم ہے نہ تو خود کو سب سے بالا تر سمجھنے کا۔۔اس وقت ہر جگہ انسان خوشی یا غم میں مبتلاہیں پاکستان میں ایک طبقہ خوشی تو دوسری طبقہ غم میں ہیں۔
یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے مگر اس سلسلے میںغلط فہمیاں انسان کو گمراہ کرتے ہیں۔کبھی غم والے حضرات میں سے کروڑوں اربوں کی تعداد میں خوشی کی طرف ایک مقرر وقت کیلئے چلے جاتے ہیں۔توکبھی خوشی والے غم کی دنیا میں آجاتے ہیں۔انسان کی زندگی میں اللہ کی فضل کرم سے دونوں کبھی خوشی تو تو کبھی غم میں ضرور آتا ہے ہمیشہ تا حیات نہ غم رہتا ہے نہ ہی خوشی رہتا ہے۔۔۔میں ایک مثال کے طور پر پاکستان کی 18کروڑ عوام کو تین طبقوں میں تقسیم کر رہا ہوں۔ تصور کیجئے کہ(1) ایک کروڑ امیر طبقہ ہے ( 2) 8کروڑ درمیانی طبقہ اور(3) 9کروڑ غریب طبقہ ہیں۔
امیر طبقہ وہ طبقہ ہے جن کے پاس کھانے ، پینے، رہنے ،سونے، خریدنے کیلئے پیسہ بہت موجود ہے اپنی اور اپنے خاندان کی موجود ضروریات زندگی سے بھی زیادہ پیسہ و جائیداد موجود ہو۔ درمیا نی طبقہ وہ طبقہ جو ملازمت یا کاروبار کرتا ہے جن کے پاس کے پاس کھانے ،پینے، رہنے، سونے خریدنے کیلئے پیسہ موجود ہے اتنی مقدار میں ضرور موجود ہے کہ حالیہ دور میں اپنے خاندان کی ضروریات زندگی کو پوری کر سکتے ہیں۔یہ جب جہاں جیسے چائیں اپنی خواہشات پورا کر سکتے ہیں۔مگر دولت او جائیداد کی ظاہری ایک حد ہوتی ہے۔ غریب طبقہ وہ طبقہ ہے جسے دور مرہ کی زندگی میں کھانے ، پینے ، سونے، رہنے، سونے خردنے تک کیلئے کچھ پیسہ موجود نہیں ہے نہ ہی کوئی ملازمت و جائیداد میں کاروبار وغیرہ۔ جیسا کہ میرا ایک 4سالہ شعر ہے کہ،یہ سوچ کر روز برستے ہیں میرے لہو و آنسو اے میرے حکمرانوں،،،،کہ آج اک اور سورج ڈھل گیا ہے روٹی کپڑا مکان کیلئے،،،،غریب طبقے کو کھانے پینے سونے رہنے خریدنے کے لیے کوئی پیسہ موجود نہیں ہوتا ہے۔ یہ طبقہ دولت کے لیے ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔
poor people pakistan
جسم سے لیکر ضمیر فروشی تک یہ طبقہ چلا جاتا ہے اس طبقہ کی وجہ سے بہت نظام درہم برہم ہو جاتاہے ۔اس غریب طبقے کو بلخصوص پاکستان میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتاہے حکمرا ن طبقہ ، سیاست دان طبقہ تمام سرکاری ادارے والے افواج پولیس تھانہ ،کچہری ، جوڈیشری ،عوامی کچہری سمیت ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار ہے اس کو اپنے دفاع کرنے کا شوق تو بہت ہے مگر ہمت نہیں ہے ۔جہاں کہاں سے یہ طبقہ تبراندازی کا شکارہو جاتاہے امیر اور درمیانی طبقہ کے ظلم وستم کا شکار یہ طبقہ ہمیشہ ظاہری طور پر غمی میں رہتاہے ۔ غمی سے خوشی کی طرف جانے کیلئے غلط طریقے استعمال کرتاہے ۔چوری ،ڈکیتی لوٹ مار جسم فروشی سے بڑھ کر تمام جرم چھوٹے بڑے جرائم کا شکار بن جاتاہے ۔یہ وہ طبقہ ہے جب کرتاہے خوشی میں جانے کے لیے کرتاہے مگر قانون کی گرفتاری میں بھی جلدی آتاہے تو رہ جاتاہے۔
امیر اور درمیانی طبقہ ہمیشہ بڑے بڑے جرائم کرتا ہے ان طبقوں کے جرائم کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں متاثر ہوتے ہیں ۔مگر قانون کی گرفت میں بہت کم بار آتے ہیں اگر آجاتے ہیں تو امیر و درمیانی طبقہ کی اتحاد کی وجہ سے فوراًدور لے جایاجاتاہے یعنی بچ جاتاہے درحقیقت ان تینوں طبقے کے مالکان نے غلام ایاز کی بات کونظر انداز کیاہے انھیں یاد رکھنا چاہیے” یہ وقت بھی گزر جائے گا “ضرور گزر جائے گا ۔کیونکہ کبھی وقت نہیں ٹھہرتاہے ۔خو شی اور غم کے دونوں وقت اپنے وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں ۔تینوں طبقے بھول چکے ہیں کہ یہ زندگی عارضی زندگی ہے ۔یہ خوشیاں یہ غم صرف اور صرف عارضی امتحان ہے ۔جسکو جتنا دولت سمیٹناہے سمیٹ لے مگر یہ دولت عارضی ہی ہے ۔وقت مقرر کیلئے خوشی وقت مقرر کے لئے غمی آتاہے کبھی خوشی تو کبھی غم ہوتاہے غم ضرور آتاہے ذیادہ خوشی کے ملنے کی وجہ سے خوش فہمی کا شکار بھی نہیں ہوناچاہیے نہ زیادہ غم کی وجہ سے مایوسی کی طرف گامزن ہوجانا چاہیے۔
وقت اور حالات کو نظرانداز کر کے حقیقت پر یقین کرنا بہت ضروری ہے ۔تینوں طبقوں کو یاد رکھنا چاہیے کی امیر کا امیری ،غریب کا غریبی ، عزت دار کا عزت ، شہر دار کا شہرت عارضی ہے۔اپنی دولت ،عزت شہر ت،کامیابی کو دیکھکر کبھی بھی تبدیل نہ ہو۔اپنے دوسرے طبقے کے ساتھ وہی سلوک رکھے جسکا حکم اللہ کی طرف سے ہے۔کبھی خوشی ملتا ہے تو “یہ وقت بھی گزر جائیگا”یاد رکھ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہناچاہیے ۔اپنے تمام دوستوں کو شریک کرے ۔غم والوں کو بھی شریک کرے۔ کسی کے اُوپر خود کو غالب نہ کرے نہ ہی خود پر کسی کو غالب کرے۔
ppp pakistan
غمی میں بھی مایوسی سے بچ جائے اللہ پر توکل رکھ کر بہتری کی تمنا کرے دعا کرے اور غلط فہمی سے بچ جائے۔ صدر وزیراعظم ارکان اسمبلی ،ارکان اسمبلی ،ارکان سینٹ ،تمام وزیر و مشیر ، جرنیلیں ،دانشور ،سیاستدان ،پولیس کے افسران سے لیکر پٹواری تک کے لوگ یادرکھیں کہ ” یہ وقت بھی گزر جائیگا”یعنی انکی وقت مقرر والی بادشاہت ختم ہو جانے والی ہے کسی پر ظلم و زیادتی نہ کریں نہ کرنے دیں۔
غریب و مفلس ، یتیم بچے بچیاں ، بیوہ عورتیں ، معززحضرات بھی یادرکھیں کہ “یہ وقت بھی گزر جائیگا”مایوس نہ ہو ۔مایوسی گناہ ہے ۔اللہ پر توکل رکھیں تبدیلی آنے والی ہے ۔ پاکستان کے تینوں طبقوں کو غلام ایاز کی جملہ یادرکھنا بہت ضروری ہے ورنہ گمراہی کی طرف جائیں گے کیونکہ “یہ وقت بھی گزرجائیگا۔ آصف یاسین لانگو جعفرآباد ی