جولائی 1977 کے بعد سے پنجاب میں کبھی بھی پی پی پی کو جیتنے نہیں دیا گیا جسکی وجہ یہ ہے کہ اگر مرکز اور پنجاب میںاینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومتیں قائم ہو گئیں تو پھر فوجی جنتا کا کیا بنے گا ۔اسی خطرے کے پیشِ نظر پنجاب میں ہمیشہ وہ حکومتیں تشکیل دی گئیں جو اسٹیبلشمنٹ کی منظورِ نظر تھیں۔ ١٩٨٨ کے انتخابات میں پی پی پی نے پنجاب کی قومی اسمبلی کی سیٹوں کا مرحلہ بڑی آسانی سے سرکر لیا اور پنجاب میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری جس کا اثر پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر پڑنا تھا لیکن عملی نتائج اسکے بالکل بر عکس نکلے۔ پی پی پی کو ایک سازش کے تحت صو بائی اسمبلی کے انتخابات میں حسبِ منشا شکست سے دوچار کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے جھرلو کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر راتوں رات ایک نئی حکمتِ عملی کے تحت پنجاب میں مختلف جماعتوں کے ان سارے امیدواروں کو مسلم لیگ (ن) کی حمائت میں دستبردار کرا لیا جن حلقوں سے پی پی پی کے امیدوار روں کے جیتنے کے امکانات تھے اور اسطرح سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور اثرو رسوخ سے پنجاب پی پی پی کے ہاتھوں سے نکال لیا گیا۔ پی پی پی ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہے جس کا واضح ثبوت ١٩٨٨ میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام تھا اور جس کا واحد مقصد انتخابات میں پی پی پی کا راستہ روکنا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اگر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل فوج کی پشت پناہی سے اسلامی جمہوری اتحا کی تشکیل نہ کرتے تو پی پی پی بڑی بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتی اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جا مہ پہنا تی لیکن فوج کے اندر یہ خوف جڑ پکڑ چکا تھا کہ اگر پی پی پی انتخابات میں سویپ کر گئی تو پھر فوج کے خلاف انتقامی کاروائی کرے گی اور فوج کے وقار کو نقصان پہنچائے گی لہذا اسلامی جمہوری اتحاد کا ڈول ڈالا گیا۔ انتخابی نتا ئج کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلا گیا وہ ایک علیحد ہ داستان ہے بہر حال پی پی پی کے پر کاٹ کر اسے حکمِ پرواز سنا یا گیا۔ بڑا ظلم تھا جو پی پی پی پر روا رکھا گیا تھا لیکن پی پی پی نے پھر بھی حکومت سازی کا فیصلہ کر لیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے چند ماہ کے اندر اندار پی پی پی کی حکومت کو چلتا کیا۔ یہ تو عوام کی بے پناہ محبت کا اعجاز ہے جس نے اس پارٹی کو زندہ رکھا ہوا ہے وگرنہ اسٹیبلشمنٹ تو اسے مُکا نے پر تلی ہو ئی تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کی جیت کو یقینی بنانے کیلئے جتنے حربے استعمال کئے عوام ان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ ایک ایسا نعرہ تھا تھا جس نے ملک میں پہلی بار مختلف قومیتوں کے تصادم کو ہوا دی اور پاکستان کے جسدِ خاکی میں پنجاب نے پہلی بار علاقائی سوچ کا زہر بھرا جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ پنجاب کی سرزمین سے اس طرح کا نعرہ پاکستان کی یکجہتی پر بڑا کاری وار تھا لیکن الیکشن میں پی پی پی کا رستہ روکنے کی خاطر اسے بھی استعمال کیا گیا اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے یہ الگ بات کہ پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگی اور اس کی یکجہتی بری طرح سے متاثر ہو ئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے جورو ستم سہنے کے باوجود پی پی پی وفاق کی سیاست سے کبھی دست کش نہیں ہوئی بلکہ اس نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی وفاق کی سیاست کو کو جاری و ساری رکھا اور لوگوں نے اس جماعت پر اعتماد کیا کیونکہ عوام کو پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی ہر شہ سے زیادہ عزیز ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی لئے چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جا تا تھا کہ اس سے محبت کرنے والے اور اسکے الفاظ کے تقدس پر یقین رکھنے والے ہر بستی میں موجود تھے اور محبتوں کی یہ زنجیر پاکستان کی یکجہتی کی علامت بنی تھی۔ ١٩٧٠ کے انتخابات میں پاکستان کا یہی المیہ تھا کہ ملک میں کوئی وفاقی جماعت نہیں تھی جس پر لوگ اعتماد کرتے ۔ پی پی پی اور عوامی لیگ پاکستان کے دونوں بازوئوں کے درمیان نفرتوں کی خلیج کو پاٹنے میں ناکام رہیں جسکی وجہ سے ملکی سلامتی پر علیحدگی کے بادل منڈلانے لگے۔ مشرقی پاکستان والے مغربی پاکستان والوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے اور مغربی پاکستان والے شیح مجیب الر حمان کے چھ نکا ت کو ملک توڑنے سے تشبیہ دیتے تھے۔ شیخ مجیب الرحمان پر اگر تلہ سازش کیس کا مقدمہ درج تھا اور اسکی سرگرمیاں وفاقِ پاکستان کے لئے زہرِ قاتل تھیں ۔ میں ان لوگوں سے بالکل متفق نہیں ہوں جو آجکل شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان کا ہمدرد بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قبلہ تو مرغِ باد نما کی طرح ہرلمحے بدلتا رہتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا اور پھر اسکی اپنی قوم نے اسکا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے لہذا یہ کہنا کہ شیخ مجیب الرحمان پاکستان کی یکجہتی کا حامی تھا بالکل حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ شیخ مجیب الرحمان نے جو مطالبات ١٩٧٠ میں پیش کئے تھے کیا آج موجودہ صوبوں کو وہ حقوق دئے گئے ہیں بالکل نہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ شیخ صاحب کے مطالبات جائز تھے اور انہیں مان لینا چائیے تھا حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔وہ مطالبات اگر اس وقت جائز ہو تے توآج بھی جا ئز ہو تے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔اُن مطالبات کے اندر تو خود ایک علیحدہ ریاست کے بیج بوئے گئے تھے لہذا ان سے علیحدگی کی فصل ہی اگنی تھی اور علیحدگی کی فصل اگی جسے بنگالیوں نے بھارت کی مدد سے کاٹا اور یوںپاکستان کی تخلیق پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ۔ان مطالبات کو نہ کل حق بجانب قرار دیا جا سکتا تھا اور نہ ہی ان مطالبات کو آج حق بجانب قرار دے کر پاکستان کے موجودہ صوبوں کو وہ حقوق دئے جا سکتے ہیں۔یہاں پر تو فوج وفاقی حکومت کو خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتی چہ جائیکہ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کو شرفِ قبولیت بخشا جاتا اور ملک انکے حوالے کر دیا جاتا ۔میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ ملک کے دو لخت ہونے میں سب سے بڑا عنصر وفاقی جماعتوں کی عدم موجودگی تھی اگر مقبول وفاقی جماعتیں موجود ہو تیں تو پھر بنگالی وہ کچھ کبھی نہ کر پاتے جو انھوں نے شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مل کر کیا۔ موجودہ پاکستان میں پی پی پی وفاق کی علامت اور ملکی سلامتی کی ضامن جماعت ہے لہذا اسکے خلاف ہنگا مے آئینی حدود کے اندر رہ کر ہو نے چائیں، منہ اٹھا کر اول فول بکنے سے ملک کی خدمت تو کوئی نہیں ہو سکتی البتہ مختلف اکائیوں کے درمیان نفرتوں کو ہوا ضرور دی جا سکتی ہے جس سے وفاق کی زنجیر کو ضعف پہنچ سکتا ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی اوپر نیچے ہو تی رہتی ہے، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی ہو تی رہتی ہے اور بحث و مبا حثے بھی جاری رہتے ہیں لیکن وہ چیز جو سب پر مقدم تصور کی جانی چائیے وہ پاکستان کی بقا اور اسکی یکجہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں مختلف فورموں پر اپنی آوازیں بلند کرتی رہتی ہیں انکی تنقید کا واحد مقصد حکومت کا قبلہ درست کرنا ہونا چائیے ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم پر طویل مکالمہ ہوا لیکن آخرِ کار سبکی رائے سے وہ ترمیم متفقہ طور پر منظور ہو گئی جس پر پارلیمنٹ کی ساری سیاسی جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے پاکستان اور جمہوریت کو اپنی جماعتی وابستگی سے بالا تر رکھا تب کہیں جا کر اتنا بڑا معرکہ سر ہوا۔وفاقی جماعتیں کسی بھی ملک کیلئے ایک نعمت ہو تی ہیں اور وفاق کی ساری اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر رکھتی ہیں جس سے عوام کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات پروان نہیں چڑھتے ۔ انکے درمیان ہر سطح پر مکالمے کی ایک فضا قائم رہتی ہے اور وہ باہمی مکالمے کے ذریعے ا پنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں جس سے انکی سرگر میاں خود بخود استحکامِ پاکستان کا موجب بن جاتی ہیں ۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف وفاقی جماعتوں میں ایک اور جماعت کا اضافہ ہے جو پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے خوش آئیند بات ہے۔ تحریکِ انصاف کے جلسے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ایک چیز بڑی واضع ہے کہ انکے جلسے نے علاقائی، مذہبی اور لسانی سیاست کو کمزور کر کے وفاقی سیاست کو مزید تقویت عطا کی ہے ہمیں عمران خان کو خوش آمدید کہنا چائیے کہ وہ استحکامِ ِ پاکستان کی بات کرتا ہے اور لوگ اسکی باتوں پر کان دھرتے ہیں ۔ اسکی پالیسیوں ، نظریات ،پروگرام اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ تحریکِ انصاف وفاق کی علمبردار ہے لہذااسکی مضبوطی سے زنجیرِ پاکستان مضبوط ہو گی۔ میاں برادران پر عمران خان کی وجہ سے ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے اور انھوں نے الزامات کا نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو تلخیوں کوہو ادے کر فضا کو مزید براگندہ کر رہا ہے جس کا سدِ باب ہو نا چائیے ۔ تحریر : طارق حسین بٹ