تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ وجہ الکریم کی لامحدود حمد وثناء وجہ تخلیق کائنات ذات کبریا جناب محمد مصطفیۖ پر درودوسلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے پانامہ کے قصہ پر زیر نظر سطور ترتیب دی ہیں قارئین کرام کی میٹھی کڑوی آراء کا انتظار رہے گا کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے اسکے بنیادی ستون عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض بجا لانے اتنے ہی لازمی ہیں جتنا کہ زندگی کے لیے سانس انہیں بنیادوں پر معاشرہ پھلتا پھولتا ہے اور ریاست اگر اسلامی ہو تو یہ ستون اسلامی قوانین کے پابند رہ کر ریاست کے باشندگان کے حقوق کا خیال یوں رکھیں گے کہ ہر صاحب اقتدار اللہ کے بعد عوام کو اتنا ذیادہ جواب دہ ہوگا جتنا بڑا اسکا عہدہ ہو گا۔
اب مملکت خداد وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دیکھ لیں دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت زرعی میدانوں سر سبز پہاڑی وادیوں صحرائوں اور معدنی وسائل سے مالا مال یہ وہ ریاست ہے جس کی بد بختی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے حصول کے بعد اس پر قابض ٹولہ پورے چھبیس سال اسکے لیے کوئی قانون ہی نہ بنا سکا یہ کردار تو مقننہ کا رہا اب اگر قانون ہی نہیں بنے گا تو عدلیہ کس نظام کے تحت فیصلے کریگی اور انتظامیہ تو ویسے بھی مقننہ کے غلام کے زمرہ میں آتی ہے جو بھی صاحب اقتدار ٹھہرا اسنے انتظامیہ کو اپنی باندی بنا کر ہی رکھا۔
مقننہ ہماری دونوں قومی اور صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ کے ارکان ہوتے ہیں جنہوں نے ملکی مسائل اور بین الاقوامی حالات کو پیش نظر اپنی رعایا کے لیے قوانین بنانے ہوتے ہیں مگر گزشتہ دوتین دہائیوں سے عوام شائد یہ بھول ہی چکے ہوں کہ قانون سازی ہمارے معزز اسمبلی ارکان کا کام ہے بلکہ اب تو شائد عوام میں یہ تاثر پیدا کردیا گیا ہے کہ سڑکیں بنانا پل بنانا اور اپنی اپنی کمپنیوں کو ٹھیکے دینا ہی اسمبلیوں میں جاکر کرنے کا کام ہے جب ارکان اسمبلی یہ کررہے ہونگے تو انتظامیہ انکے ساتھ ساتھ بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونے میں بلکہ نہانے میں مگن رہے گی عدلیہ میں کرپشن انکی مجبوری بن جائیگی۔
یہی صورتحال اب اس ملک کی ہے اسمبلی ممبران کی شناخت کچھ یوں ہی بن چکی ہے کہ جو سڑکیں ذیادہ بنائے پل ذیادہ بنائے اور لوٹ مار کرے بھی کرنے والے افراد کا سہولت کار بھی ہو اسی طرز حکمرانی پر چلتے ہوئے ہمارے اوپر مسلط حکمران طبقہ نے ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ملک اربوں روپے کی جائیدادیں بنالیں کوئی سے محل کا مالک بنا تو کوئی لندن فلیٹس کا پھر غیر ملکی میڈیا چیخ اٹھا اور حالیہ برسر اقتدار پارٹی کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان کو بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزام میں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں آنا پڑا نو آموز سیاستدان انقلابی ذہنیت کے لیڈر عمران خان نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا کہ حاکم وقت کو تلاشی دینے کے لیے عدالت میں اپنے خاندان کو پیش کرنا پڑا ان کے دیکھا دیکھی دوسرے سیاستدان بھی اسی مقدمہ کے فریق بنے جن میں لال حویلی والے شیخ رشید کا مدعی بننا کم ازکم میرے لیے تو مضحکہ خیز ہی ہے موصوف حکمران پارٹی کے دست راست رہے اور ان جائیدادوں کے بنتے وقت بھی اپنی مخصوص وزارت کے مجرے لال حویلی میں کروارہے تھے اگر اسوقت جناب شیخ صاحب عوام میں آکر چلا پڑتے تو آج غیر ملکی میڈیا کے موقر جریدے پکوڑوں والے کاغذ نہ کہلواتے پوری قوم کو ایک مسلسل سسپینس میں رکھا گیا اور سپریم پاور آف پاکستان نے اس پر جو اپنے بیانات دیے کہ ایسا فیصلہ دینگے جو صدیوں یاد رکھا جائیگا۔
قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جایئنگے وغیرہ وغیرہ سنائے گئے فیصلہ پر دونوں فریقین خوشیاں منارہے ہیں اور عوام بے چاری یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ فیصلہ کس کے حق اور کس کے خلاف آیا ہے اسے عوام کی بد بختی اور شامت اعمال کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا جناب عمر فاروق کے دور خلافت میں جناب علی پر کسی نے الزام عائد کردیا قاضی وقت نے باب العلم کو عدالت میں طلب کرلیا چشم عالم حیران تھی خلیفہ ء وقت جناب عمر فاروق خود عدالت میں براجمان تھے کہ قاضی فیصلہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرے اور جب ملزم کے کٹہرے میں سید ناعلی حاضر ہوئے تو خلیفہ ئوقت نے کرسی پر بیٹھنے کی پیشکش کی اور اس پر اصرار بھی کیا مگر نائب رسولۖ نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اپنے اوپر لگنے والے الزام سے بری الذمہ ہوجائوں یا ثابت ہوجانے پر سزا نہ لے لوں میں کرسی پر بیٹھنے کا اہل نہیں اب اس واقعہ کو موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں دیکھ لیں کون کہاں کھڑا ہے کیا میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے کے اہل ہیں کیا سپریم کورٹ نے واقعی ایسا فیصلہ دیا ہے جو صدیوں یاد رکھا جائیگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ تائب ہوجائے اپنے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی سعی کرے گناہوں سے معافی مانگے اور اس معاشرہ کو تشکیل دینے میں ہر شخص اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرے جسکی ابتدا گھر سے ہوتی ہے گھر میں بچوں کو ایسا ماحول دیں کہ جس سے وہ معاشرہ کے ساتھ چلنے کے بجائے معاشرہ تشکیل دینے پل اور سڑکیں تعمیر کرنے کے بجائے قوم تعمیر کرنے کا ویژن دیں اللہ ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے اور ہمیں سرے محل سے پانامہ تک رہنے والے اس ٹولہ سے نجات عطا فرمائے۔ آمین والسلام