واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے بتایا کہ اوباما انتظامیہ کے مقابلے میں راز افشا ہونے کے واقعات کی تفتیش کی تعداد تین گنا بڑھا دی گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ’کلاسی فائیڈ‘ نوعیت کی معلومات کی ذرائع ابلاغ، انٹیلی جنس کمیونٹی اور دیگر سرکاری اداروں کو ’لیک‘ ہونے سے بچایا جائے۔
سیشنز نے کہا کہ وہ اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ ’’راز افشا ہونے کے معاملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، تاکہ رازوں کو عام ہونے سے روکا جائے، جن کی وجہ سے ہمارے ملک کے تحفظ کی ہماری حکومت کی استعداد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ میڈیا میں اپنی ذاتی لڑائی لڑنے کی غرض سے حساس نوعیت کی سرکاری معلومات کا انکشاف کرتا پھرے‘‘۔
جمعے کے دِن کی گئی اِس اخباری بریفنگ سے ایک ہی روز قبل، ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے چند روز کے دوران صدر کی غیر ملکی سربراہان کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فون گفتگو کا متن جاری ہوا ہے۔
لیک کی گئی گفتگو میں صدر میکسیکو کے صدر اینرک پنا نائتو کے ساتھ مذاق میں کہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں کہ سب کے سامنے اس بات سے انکار نہ کردیں کہ آپ ٹرمپ کی میکسیکو کی جانب سے تعمیر کی جانے والی امریکی سرحدی دیوار کے خلاف ہیں۔ اس میں وہ سخت لہجے والی گفتگو بھی شامل ہے جو مہاجرین کو قبول کرنے کے معاملے پر ٹرمپ نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل کے ساتھ کی تھی، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت حال آپ کے لیے مسائل کھڑے کرے گی۔
نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ، ڈین کوٹس نے افشا ہونے والی معلومات کو ’’ہمارے ملک کی تاریخ میں صیغہٴ راز کی نوعیت کی معلومات ظاہر کرنے کا بدترین معاملہ‘‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ’’اِن انکشافات کے نتیجے میں ہماری قومی سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘‘۔