فیصلہ ہو گیا اِس بار ووٹ کِس پارٹی کود ینا ہے۔ملک پاکستان صرف سیاستدانوں کانہیں عوام کا بھی ہے۔عوام کو اِن بڑے بڑے دعوے کرنے والوں سے اپنے قیمتی ووٹ کے عوض اِ س بار کچھ سکیورٹی چاہیے۔صحت مند منشور پیش کرنے والے دعویدار سچے اور پکے محب الوطن انسان دوست وعدے نبھانے کیلئے تیارہیں۔انہیں دولت، طاقت اور رتبے سے کوئی سروکار نہیں ۔وہ الگ بات ہے کہ دولت طاقت رُتبہ کیا مِلا فرعون کو خدا سے خدا کی خدائی مانگ لی
میرا دل کہتا ہے کہ اس بار سچ میں اپنے وعدے نبھانے کے دعوے کرنے والے اپنی تمام تر جائیداد غریب عوام کے پاس گروی رکھوا کر قسم لیں گے کہ اگر ہم نے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو ہماری تمام جائیداد غریبوں،بے روزگاروں اور محتاجوں کے نام کر دی جائے اور جِن کاموں کو پورا کرنے کا ہم نے وعدہ کیا تھا انہی کاموں میں صرف کی جائے۔اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ سب سے پہلے کون اپنی تمام جائیداد میڈیا کے سامنے اِس شرط پر الیکشن کمیشن یا فوج کے سپرد کرتا ہے کہ اگر ہم نے عوام سے کیے ہوئے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو ساری جمع پونجی عوام کی۔
پاکستان میں بڑے بڑے کھرب پتیی سیاست دان موجو دہیں مجھے اُمید ہے کہ پاک سرزمیں کے حامی عوام دوست سیاست دان اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔پی پی پی کے نامور ناموں میں جناب آصف علی زرداری، اِن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور ڈاکٹر عذرا ،اویس مظفر ،منور تالپور،سید قائم علی شاہ،سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور اُن کے بیٹے سید عبد القادر گیلانی ،سید موسیٰ گیلانی،سید احمد مجتبیٰ گیلانی اور میاں منظور وٹووغیرہ۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اہم ناموں میں میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف،میاں حمزہ شہباز ،عابد شیر علی،کیپٹن صفدر،بیگم عشرت اشرف،مریم نواز وغیرہ…مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران بھی تعداد میں کِسی سے کم نہیں ہیںچوہدری شجاعت حسین،چوہدری وجاہت حسین ،چوہدری شفاعت حسین ،چوہدری پرویز الٰہی،مونس الٰہی،چوہدری انور چیمہ وغیرہ مولوی برادران میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب ،مولانا عطاء الرحمٰن ،مولانا لطف الرحمٰن ،مولانا عبید الرحمٰن وغیرہ جبکہ عمران خان کی فہرست موروثی بیماریوں سے پاک ہے۔
ویسے جاوید ہاشمی،عمران اسماعیل وغیرہ کوئی ایک تو قدم بڑھائے گا ہی اپنے قول و فعل اپنی پارٹی کی پاسداری کی خاطر پاکستان اور اُس کی اٹھارہ کروڑ عوام کی خاطر اپنا سب کچھ وہی گروی رکھوائے گا جس نے مستقبل میں ہر بات سچ کر دکھانی ہوگی بلاشبہ ”سچ کو آنچ نہیں۔اگر اِس بار سچ میں ایسا ہوگیا اور بننے والی حکومت نے اپنے وعدے وفا کر دیے تو وہ دِن دور نہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ نہ صرف اپنے سر سے 80ہزار روپے کا قرض اُتار کر ملکِ پاکستان کو قرضے کی لعنت سے چھٹکارہ دلوادے گا۔
Pakistan
یاد رہے کہ اِس وقت ہر ایک پاکستانی 80ہزار کا مقروض ہے)بلکہ خود پاکستان کا بچہ بچہ لکھ پتی کہلائے گا۔مگر” وہ و عدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔یہ صرف الیکشن ہی نہیں پاکستان کے 18کروڑ عوام اورخاص طور پر پاکستان کے 12کروڑ 60لاکھ نوجوانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔2013کی رو سے نوجوان ملک میں بڑھتی کرپشن پر حکمرانوں سے خفاء ہیں کیو نکہ وہ پاکستان میں مثبت تبدیلیاں نہیں لا سکے ۔کِسی دانشور کا قول ہے کہ ”آج تک اکثر بڑے کام نوجوانوں نے ہی سر انجام دیئے ہیں۔
مگر افسوس ہمارے منتخب کردہ حکمران ہی ہماری نوجوان نسل کو دیمک کی مانند چاٹ رہے ہیں۔میں کہتا ہوں کہ ووٹ ڈالنا ہر شہری کا اہم ترین فرض ہے ۔ 12کروڑ 60لاکھ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بڑوں بوڑھوں اور خواتین کو بھی اِن ہی چند دِنوں میں اہم ترین فیصلہ لینا ہوگا کہ اُن کے قیمتی ووٹ کِس وعدہ پرست کے حق میں جاتے ہیںکیونکہ عوام نے جو بونا ہے و ہی کاٹنا ہے۔ہونا تو یہی چاہیے کہ 11مئی2013کو تمام رہائش گاہیں سنسان اور پولنگ اسٹیشن آباد ہوں۔
کم از کم ساڑھے بارہ کروڑ نوجوانوں کو تو اپنی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے 11مئی2013کو گھروں سے نکلنا ہی ہوگا۔جب صوبائی سطح پر مارچ 1951 میں ہونے والے پاکستان میںپہلے الیکشن کا ڈول ڈالا گیا تھا اگر تب سے ہی کوئی ایسی حکمتِ عملی اپنا لی جاتی کہ جیسے بڑے بڑے وعدے کرنے والے دعویداروں کا ایمان تک گروی رکھ لیا جاتا تو آج ہر طرف نہ صرف حق اور سچ کا بول بالا ہوتا بلکہ کہے گئے پر عمل پیرا ہونا بھی قانون کا حصہ بن جاتا۔
فِل وقت مہنگائی اور بجلی ، پانی وگیس کی کمی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے اِس کے بعد بیروزگاری،تعلیم اور امن و امان کی عدم موجودگی بڑے مسائل ہیں۔کون ہے جو اِن تمام مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی اثاثہ بطور ضمانت جمع کروائے؟مشہور کہاوت ہے کہ”باتوں کا پلائو تو ہر کوئی پکا لیتا ہے مزہ تو تب ہے کہ جب اصل میں پکا کر دکھائیں۔
اب بہت ہوچکی اب صرف وعدوں سے کام نہیں چلے گا ۔قوم اب جاگ چکی ہے بھوکا شیر زیادہ خطر ناک ثابت ہوتا ہے اور اِس وقت قوم بھوک کی آخری لکیر بھی پار کر چکی ہے ۔انتہاء کی لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی،بیروزگاری،کرپشن،غربت،لگاتار جھوٹے وعدوں نے عوام کی راتوں کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور جو سوتے نہیں وہ سنہرے تو کیا کِسی قسم کے بھی خواب نہیں دیکھتے۔
Political Party
پیارے پیارے سیاستدانوں جائو اور جاکے یہ سنہرے ،چٹ پٹے،خواب انہیں دکھائوں جو سوئے پڑے ہیں اور جو سوئے پڑے ہیں وہ آنکھیں بند کیے کِسی بھی انتخابی نشان پر مہر لگادیں گے ۔علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”اُن قوموں کی تقدیر کبھی نہیں بدل سکتی جنہیں خود اپنی تقدیر بدلنے کی فکر نہ ہو اور اب آخر میں چند ایسے سیاسی وعدے جوہمارے بڑوں کو بھی حفظ ہو چکے تھے تھانہ کلچر کا خاتمہ اور انصاف کا ایسا نظام جو فوری ہو حلقے میں نئے سکول اور کالجز ( بوئز اینڈ گرلز) کا قیام امیر اور غریب کے بچوں کیلئے یکساں تعلیم کے مواقع سرکاری محکموں سے شاہانہ طرزِ زندگی اور پروٹوکول کا خاتمہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا یقینی خاتمہ کیا جائے گا۔
سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بیوائوں اور یتیموں کے قرضے معاف آٹا ، چینی ،گھی، دال ، چاول سمیت تمام اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں یقینی کمی غیر ملکی قرضوں کا خاتمہ پیٹرول اور ڈیزل ،مٹی کے تیل،گیس و بجلی کے نرخوں میں کمی سرکاری محلات کے بیش بہا اخراجات ختم نوجوانوں کیلئے فنی اور تکنیکی تعلیم اور ملازمتوں کی فراہمی غریب کو عزت اور وقار کے ساتھ بہترین علاج کی فراہمی تعلیمی اور صحت کے بجٹ میں اضافہ وغیرہ یقینا یہ سب کچھ اور اِس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
مگر صرف دعووں اور وعدوں کی بنیاد پر نہیں کیونکہ مظلوم عوام نے کرپٹ سیاستدانوں سے چار جماعتیں پڑھ لی ہیں ۔اب تو بس ایک ہاتھ دو اور ایک ہاتھ لو اگر کچھ کر دکھانا ہے تو آپ کی جمع کردہ سکیورٹی آپ کی امانت ہے جو ساری قوم اور میڈیا کے سامنے ہاتھ باندھ کر واپس کی جائے گی۔الیکشن کمیشنر جسٹس(ر) فخر الدین جی ابراہیم صاحب سیاستدان اگر ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور کِسی قسم کی سکیورٹی جمع نہیں کرواتے تو آپ واضع لفظوں میں کہہ دیجیے کہ ”11مئی کو الیکشن نہیں ہوں گ۔