وہ سارے تبدیلی کی خواہش لے کر آئے تھے تاحدِ نظر سر ہی سر نظر آ رہے تھے کھوے سے کھوا چھلتا تھا، اگر لینن کے اس قول کی سچائی کو مان لیا جائے کہ جس کے پاس نوجوان ہیں مستقبل اسی کا ہے، تاریخ کے اوراق میںاس قول کی تصدیق مختلف تحریکوں کے اندر نوجوانوں کا کردار کرتا ہے نوجوانوں کی سرگرم مداخلت کو بطور مثال زیر بحث لایا جا سکتا ہے انسانی تاریخ کے انقلابات کی تحقیق و تعمیر میں نوجوانوں کا کردار ہمیشہ فیصلہ کن رہا کرہ ارض پر جتنی تحریکوں نے جنم لیا ان میں نوجوان اور طالب علم صفِ اوّل میں موجود رہے۔
برصغیر کے تاریخی اوراق پلٹیں تحریک آزادی میں نوجوانوں نے پارٹی قیادت کی لائن آف ایکشن کو متاثر کیا، برصغیر کی تقسیم کے بعد وطن عزیز کے اندر مختلف سیاسی بحرانوں کی وجہ سے ابھرنے والی سرکشیوں میں نوجوانوں نے خستہ اور فرسودہ نظام سیاست کے پیرو کاروں کو للکارا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ،69۔1968 کی تاریخ ساز تحریک میں طلباء کی جدجہد انتہائی اہمیت کی حامل تھی جس کا آغا ز ایک طالب علم عبدالحمید کے قتل سے ہوا اور معاشرے کے تمام تضادات ایک دھماکے سے پھٹے نیشنل سٹوڈ نٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طالب علموں نے ملک گیر صدائے احتجاج بلند کی بغاوت کا علم جب نوجوان میدان میںلیکرنکلے تو ایوبی آمریت روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں تخلیل ہوگئی ،مگر نظام کے خلاف اس تحریک اور دیگر چھوٹی چھوٹی بغاوتوں میں طلباء ،نوجوانوں کی جانگسل تگ ودو کے ساتھ ایک المیہ سائے کی طر ح چمٹا رہا ،وہ المیہ قیادتوں کی رہنر نی تھا جس کی بنا پر تحریکیں ِخون میں ڈوب گیں اور اس کی سزا انسانی نسلوں کو بھگتنا پڑی اقتدار پر وحشیانہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے شخصی آمریت مسلط ہوتی رہی اور تحریکوں کے ہراول نوجوان اورطلبہ مایوسی، تذبذب، ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے چلے گئے۔
اگر کوئی کسر باقی بچی تو وہ روایتی قیادت کے مفادات اور عالمی پراپیگنڈہ نے پوری کردی تحریکیں سیدھی لکیر میں نہیں چلتیںاور معاشروں میں طاقتوں کا توازن بھی ایک جیسا نہیں رہتا اجتماعی شعور متحرک ہوتا ہے اور واقعات سے اثر قبول کرتا ہے جب یہ اثرات مقداری حوالے سے اس نہج کو پہنچ جائیں جہاں مقدار معیار میں تبدیلی کی متقاضی ہو جائے تو یہ اجتما عی شعورواپس واقعات پراثر انداز ہونا شروع ہو جاتا ہے سیاسی گہماگہمی اور انتشار سے نظم و ضبط کا ظہورہوتاہے اور اگر اس نظم وضبط کو مناسب قیادت اور درست حکمتِ عملی میسر آجائے تو پھر عوام دشمن اور وطن دشمن قوتوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ہوتا ہے فرسودگی کی تدفین ہوتی ہے اور نئی اعلیٰ انسانی اخلاقیات اور اقدار جنم لیتی ہیں انقلاب برپاہو تا ہے اور پرانے گلے سڑے معاشی سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی لاش کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
Imran Khan
وطنِ عزیز کا نوجوان عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کی خواہش کے ساتھ 44 سالہ جمود اور سکوت کے خول کو پھاڑ کر باہر نکلا ہے کیونکہ 1968-69 کی تحریک کے بعد نوجوان نسل میں تبدیلی کی سوچ نے کروٹ لی ہے اور جنوبی پنجاب میں گزشتہ دنوں میں نے ایک بڑے معرکے کے لئے اسے بے تاب دیکھا ہے اس وقت اور آج کے معروضی حالات میں یہ تضاد ہے آج کے نوجوان میں زیادہ غصہ ،نفرت اور بغاوت موجود ہے اور یہ تضاد ناگزیر طور پر انقلابی ڈھانچے کو تخلیق کرنے کا سبب بنے گا وطنِ عزیز کے دگرگوں حالات میںانتہائی اہم موڑپر نوجوانوں اورطالب علموں کوجنوبی پنجاب کے عبدالمجید خان نیازی خان کی قیادت میں تبدیلی کے تاریخی فریضے کی طرف مائل دیکھا ہے اورجنوبی پنجاب کی یہ نسلِ نو جو ہزاروں کی تعدادمیں یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نکلی کا براہِ راست تعلق ان مصائب اور اذیتوں سے ہے جو ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظامِ سیاست کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث طالب علموں اورنوجوانوں کو برداشت کرنا پڑیں تعلیمی اداروں کی نج کاری کا مسئلہ،فیسوں میں اضافہ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری وہ مسائل ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو تحریکِ انصاف کی چھتری تلے آنے پرمجبور کیا۔
اپنے مربی حسن اسلم اعوان کی بات سے اتفاق کئے بنا چارہ نہیں کہ پنجاب حکومت جتنے لیپ ٹاپ تقسیم کرے نوجوانوں کی جذباتی وابستگی عمران خان کے ساتھ نہیں توڑ سکتی اور اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ صرف اور صرف نوجوانوں کے اندر اس فرسودہ نظام کو بدل کر انقلاب کی صلاحیت ہے عمران خان یقینا ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں کیونکہ نوجوانوں کے اندر بے چینی اتنی زیادہ ہے، بھوک اور ذلت اتنی شدید ہے محرومیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب تحریک انصاف کی شکل میں یہ کارواں تھمے گا نہیں11مئی کو بھی وہ شہر اقتدار میں تبدیلی کی خواہش لیکر نکلے تھے اورتاحدِ نظر سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔