تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی نوٹ ! 12 ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن کے لیے پورے عالم اسلام میں حضور نبی کریم ۖکی ولادت باسعادت کا دن بڑے جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے منایا جا تا ہے ، دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں سے قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائے دلنواز سنائی نہ دے رہی ہو ، 12 ربیع الاول کے دن ہر صاحبِ ایمان اپنے من میں محبت رسول ۖکی جوت جگائے مسرت و خوشی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس مقدس اور پاکیزہ ترین دن میں اللہ رب العزت نے اپنے سب سے پیارے محبوب پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت ۖ کو ہم میں مبعوث فر مایا ، اللہ تعا لیٰ نے اپنی پاکیزہ کتاب قرآن مجید میں رسول رحمت ، پیغمبر انسانیت حضور نبی کریم ۖ کے بارے میں ارشاد فرمایا”میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آیات سناتا ہے ، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے (البقرہ ، 151 )ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ”وہ اللہ وہی ہے جس نے اُم القریٰ کے رہنے والوں کے درمیان ایک رسول اُٹھایا جو اُنہیں اللہ تعا لیٰ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُن کی اصلاحِ نفس کرتا ہے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے
”(سورةالجمعہ )ماہرین کتب کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہی ہے جبکہ پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت ۖ دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر سب سے زیادہ لٹریچر شائع ہوا اور آج دنیا میں جتنے لوگ بھی مسلمان ہو رہے ہیں وہ سب کے سب حضور نبی کریم ۖ کی سیرت پاک کو پڑھ کر مسلمان ہو رہے ہیں کیونکہ حضور نبی کریم ۖ کی سیرت پاک زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری راہنمائی کرتی نظر آتی ہے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے لیے حضور نبی کریم ۖ نے ضابطہ اخلاق ترتیب نہ دیا ہو ، اور دنیا میں واحد ایسی شخصیت ہیں کہ جن کی ولادت باسعادت سے لے کر ظاہری وصال تک ہر لمحہ رخشندہ ، تابندہ اورنکھرا ہوا نظر آتا ہے امور ِ کتب خانہ میں عالمی شہرت یافتہ مصنف اور لائبریرین مسٹر روز نتھال ، ایف اپنی تصنیف (Four Eassaysonart And Literature In islam……Leiden.1971)میں لکھتے ہیں کہ ” پیغمبر اسلام کی شخصیت پر کتب لکھنے کا سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے مسلسل جاری ہے اسلام کے ابتدائی دور میں کاغذاور قلم ایجاد ہو چکاتھا اس لیے مصنفین نے سیرت پاک کے ہر پہلو کو ابتدا ء ہی میں من و عن محفوظ کر لیا مسلم مورخین ، مصنفین ، مفکرین ، ادباء اور شعراء بغرض عقیدت لکھنا پسند کرتے تھے جبکہ غیر مسلم عالمی مورخین ، محققین ، اور مصنفین آپ ۖ کی شخصیت کے مطالعہ کی ابتدا ء فنی ضرورت کے ضمن کرتے مگر بعد ازاں یہ مطالعہ ان کو بھی آپ ۖ کا گرویدہ اور عقیدت مند بنا دیتا ہے
SEERAT UN NABI
عقیدت اور ضرورت کے اس تناظر میں سیرت پاک پر نا قابل شمار کتب تصنیف کی گئیں محدود جا ئزہ کے مطابق ہا رون الرشید کے عہد میں صرف ”بیت الحکمت ” میں موجود دس لاکھ کتب میں سے ساڑھے تین لاکھ کتب سیرت النبی ۖ پر تھیں فاطمی خلیفہ الحاکم با مر اللہ کے قاہرہ میں قائم کتب خانہ ”دار العلم ” میں سیرت پاک پر چار لاکھ کتب مو جود تھیں جبکہ چھٹی صدی ہجری میں کردوں کے ہاتھوں تباہ ہو نے والے کتب خانے جلال الکتب میں موجود سولہ لاکھ کتا بوں میں سے صرف سیرت پاک پر تحریر کتب کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے زائد عنوانات پر مشتمل تھی طرابلس میں بنو عمار کے کتب خانے میں تیس لاکھ کتب موجود تھیں جن کا ایک تہائی سے زائد حصہ سیرت نبوی پر لکھی جا نے والی کتا بوں پر مشتمل تھا ترکی میں سلطان محمد فاتح کے دور میں صرف استنبول کے کتب خانوں میں سیرت نبوی پر مختلف عنوانات کے تحت تیس لاکھ کتب موجود تھیں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر جب قلعہ ملوٹ پر قبضہ کیا تو ابراہیم لودھی کے کتب خانہ سے چند سیرت پاک پر کتابیں ملیں ورثہ میں جب یہ ہمایوں کو ملیں تو اس نے بطور احترام قلعہ کی تیسری منزل شیر منڈل پر منتقل کیا اور یہیں
ایک عظیم کتب خانہ بنایا اس شاہی کتب خانہ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور سیرت پاک پر لکھی ہوئی کتب کا ذخیرہ اورنگ زیب عہد میں پچاس لاکھ سے زائد تھا مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد یہ کتابیں منتشر ہو گئیں اور بہت سے نجی کتب خا نوں کے علاوہ یورپ بھی منتقل ہوئیں، اگرچہ تا تاریوں کے بغداد پرحملہ سے دہلی کے 1857ء ء کے غدر تک کتب خانے مسلسل حادثات کا شکار رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود سیرت پاکۖ کے موضوع پر دنیا کے دوسرے حصوں میں کتب کا بہت سا ذخیرہ ہمیشہ محفوظ رہا ہے جیسا کہ مدینة النبی ۖمیں کتب خانہ محمودیہ اور کتب خانہ شیخ الاسلام وغیرہ مشہور تھے
Islam
برٹش لائبریری لندن کے سابق مہتمم C.A.COULSON کے مطابق سیرت پاک ۖ پر لکھی گئی کتب کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں البتہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ مواد اگر کسی شخصیت پر لکھا گیا ہے تو وہ بلا شبہ پیغمبر اسلام ۖکی ذات ہے بین الاقوامی لائبریریوں میںاگر ہم سیرت پاک کے کیٹلاگ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور جغرافیہ کے ہر خطے میں مختلف رنگ و نسل و ملت کے باشعور افراد نے نبی کریم ۖکے حضورہدیہ عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے ہم اگر ماضی میں سفر کرتے ہوئے عالم تصور میںعہد رسالت میںدربار رسالت ۖکی زیارت کریںتو ہم دیکھیںگے کہ اس دربار میں ، بلال حبشی ، سلمان فارسی ، صہیب رومی ، ابو ذر غفاری ، کرز فہری ، عدس نینوائی ، جماد ازدی ، سراقہ ، عدی طائی ، طفیل ، دوسی ، اثامہ نجدی ، ابو عامر اشعری ، ابو حارث ، قیس مازنی ، مالک خزاعی ، مرداس فرازی ، ابوسفیان اموی کے علاوہ بے شمار ملک و ملت ، قبیلہ و نسل کے لوگ پہلو بہ پہلوبیٹھے نظر آتے ہیں،
یہ نہیں کہ دربار صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص و محدود ہو بلکہ یہاںصحائف قدیم کے عالم اور ماہر لسانیات سرمہ بن انس ہیںیہودیوںکے سب سے بڑے پیشوا اور توریت کے عالم کامل عبد اللہ بن سلام ہیںیہاں نجران کے عیسائیوںکا اسقف اعظم کرز بن علقمہ ہیںیہاں کعبہ کے کلید بردار عرب کے امیر ترین عثمان طلحہ موجود ہیںاور یہیں ٹاٹ کے کمبل میں ببول کے کانٹوں سے بخیہ گری کیے ہوئے ذو الیجان بھی ہے حضور نبی کریم ۖ نے ہمیشہ مساوات اور رواداری کا سبق دیا ہے آج بھی اگر اُمت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ سیرت طیبہ ۖ کو اپنے من میں اُتار لے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا لے تو آج بھی ہم کامیابی و کامرانی حاصل کر سکتے ہیں اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر لمحہ سیرت طیبہ ۖ کی روشنی میں بسر کرنے کی تو فیق عطا فر مائے (آمین)