کم و بیش ایک کروڑ بے خانما ں انسانوں کی پاکستان کی طرف ہجرت سوا لاکھ بوڑھوں ، بچوں اور جوانوں کی مظلومانہ شہادت اور بیس بائیس ہزار عفت مآب مسلمان خواتین کی عصمتوں کی پامالی آزادی کی وہ قیمت تھی جو اس نوزائیدہ مملکت کو اپنے پہلے چند ماہ میں ادا کرنا پڑی، پاکستان مہیب خطرات سے دو چار رہنے کے باوجود آج بھی الحمد للہ قائم و دائم ہے اور ہماری بہت بڑی کامیابی ہے، لاکھ مگسوی، الطافوی، پلیجوی، لنگاہوی، اچکزوی، اسفندوی، ممتازوی، مبشروی، مینگلوی، تحسینوی، اصغر وی، ہود و یہود بھائی، عاصمہ جہانگیروی مینار ِ پاکستان کو اُکھاڑنے اور پاکستان کو مٹانے کے کروڑہا منصوبے تراشیں ، پاکستان کے خلاف سوچنے والے دماغ سڑ جائیں گے مگر پاکستان دائم اور مینارِ پاکستان اپنی جگہ قائم رہے گا یہ بات میں آج پورے ایمان اور ایقان سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے اس کی بنیاد کلمہ طیبہ کے آفاقی اور کا ئناتی تصورات پر رکھی گئی ہے جب تک اس دھرتی کی پیشانی پر کلمہ طیبہ تحریر ہے دنیا کے نقشہ پر پاکستان کی تصویر بھی قائم رہے گی۔
پاکستان کی انچ برابر زمین کو لندن اور دوبئی میں بیٹھی صیہونی طاقتوں کے آلہ کار گزند نہیں پہنچا سکتے ، پاکستانی قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو اپنے ماتھے کا جھومر بنائے تاکہ اقوام ِ عالم کی صف میں اپنا سینہ تان کر اور سر فخر سے اونچا کرکے بات کر سکے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نا کا میوں کو گلے کا طوق بنانے کی بجائے ان سے سبق سیکھے تاکہ اقتصادی سیاست کی جس بساط پر اسے ہارنے سے ڈرایا جا رہا ہے وہ اس بساط ہی کو لپیٹ دے ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر صرف ماتھے کے جھومر پر ہی اکتفا کیا جائے تو وہ قوموں کو خوش فہمی کے اندھے کنویں میں گرا دیتا ہے اور کامیابیوں کے طوق کو گلے سے اتارنے کی بجائے محض اس پر کڑھتا رہ جائے تو وہ قوموں سے زندہ رہنے کی اُمنگ بھی چھین لیتا ہے۔
یہاں کسی کو بھی دوام حاصل نہیں ہے اسلامی تعلیمات کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ انسان کو انسان کی غلامی اور بندگی سے آزادی دلاتی ہے وہ اعلان کرتی ہے کہ کسی وڈیرے ، لُٹیرے ، فصلی بٹیرے سر مایہ دار ،جاگیر دار ، زردار ، زور دار ، رسہ گیر ، کف گیر ، چمچہ گیر ،پیدا گیر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اولاد ِ آدم میں سے کسی کو اپنا بندہ بنا لے ، ایڈ منسٹریشن کی کائنات کے شہنشاہ ، مُرادِ رسول ۖ حضرت عمر فاروق کا ایک مشہور قول ہے کہ ”انسانوں کو کس طرح تم نے اپنا بندہ (غلام ) بنا لیا ہے جبکہ ان کی مائوں نے اُنہیں آزاد جنا ہے ” اور یہ بھی طُرفہ تماشہ ہے کہ احساسِ کمتری کے مارے مغربی تہذیب سے مرعوب ” قلمی قوال ”دانشوراور ”روغن خیال ” حضرت عمر کے درج بالا قول کو بھی کسی ٹَٹ پونجیے انگریز دانشور کے کھاتے میں ڈالنے کی نا کام کوشش کرتے رہتے ہیں ، اسلام میں کوئی بادشاہ ، سلطان ، شاہ ، ڈکٹیٹر و آمر نہیں ہو تا اسلام یہ تصور عطا کرتا ہے کہ زمین خدا کی ملکیت ہے اور تمام انسان صرف خدا کے ہی بندے ہیں ، وہی اکیلا ان کا خالق ، مالک اور حاکم ہے اس دھرتی پر کسی اِبن حاکم ، اِبن شریف ، اِبن پرویز ، اِبن پیر ، اِبن وزیر بن وزیر بن فلاں، اِبن زردار ، اِبن جاگیر دار کا حکم قطعاََ نہیں چلے گا حکم صرف اسی کا ہے اور اپنی مخلوق کو صرف وہی حکم دینے کا اختیار رکھتا ہے اور اُسی کے حکم کی اطاعت اور فر مانبرداری کرنی چاہیے ، اسی عقیدے ، نظریے اور فلسفے پر بننے والی اُمت مسلمہ کا اب یہ حال ہے کہ ان کے اندر کئی بادشاہ ، سلطان ، فوجی ڈکٹیٹر ، فاسق و فاجر ، لوٹ مار کے رسیا اور جابر حکمران جنم لے چکے ہیں اور تادم ِ تحریر اُمت مسلمہ اِنہی کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسی ہوئی ہے اور یہ اُمت ایک طویل عرصہ سے خدا کی بندگی اس کی غلامی اور اس کی خالص اطاعت سے منہ موڑ کر اُن ظالموں اور بد کردار حکمرانوں کی غلامی اور فر مانبرداری میں سر بسجود ہے اُمت کے زوال اور خسران کابنیادی سبب یہ ہے کہ وہ خدا کی حاکمیت کی بجائے انسانوں کی حاکمیت کرتی چلی آئی ہے۔
Quaid e Azam Mohammad Ali Jinnah
اس کے اندر ایسے حکمرانوں کی گنجائش پیدا کی گئی ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ اس طرح کے حکمرا نوں کی اطاعت کرنے اور رعایا بنے رہنے میں کوئی حرج نہیں ، نہ دین و ایمان میں خلل واقع ہو تا ہے ، نہ ہی خدا و رسول ۖ کی نا راضی کا خطرہ پیدا ہو تا ہے مگر یاد رکھیے کہ یہ تصور جاہلیت کا تصور ہے یہ کفر کے ساتھ مصالحت کا تصور ہے ، اس حالت پر پہنچنے کے بعد یہ اُمت ، اُمت ِ محمد ۖ نہیں رہتی بلکہ وہ پستیوں کے گڑھوں میں گر کر اپنا اصلی وجود فنا کر دیتی ہے یہی صورت حال آج ہماری ہے کہ آج ہم پر شاہ حسن ، شاہ حسین ، شاہ عبد اللہ ، سلطان النہیان ، سلطان قابوس ، جنرل کنعان ، جنرل ارشاد ، جنرل سہارتو ، جنرل ضیا ء الحق ، جنرل مشرف ، حسنی مبارک ، شاذلی صدام ، حافظ الاسد ، حبیب بورقیہ ، کرنل قذافی اور اس قبیلہ کے کئی بادشاہ ، فوجی ڈکٹیٹر ، ظالم و جابر سلطان مسلط تھے ، ہیں اور نہ جانے کب تک مسلط رہیں گے ؟یہ حکمران خدا کے باغی ، رسول ِ خدا ۖ کے دشمن ، اسلامی شریعت کے منکر ، مخلوقِ خدا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ، عام مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے اور رعایا کے تمام پیداواری ذرائع پر کنٹرول کر کے اس دولت عیش و عشرت ، کباب و شباب و شراب کے مزے لینے والے ہیں اِن حالات میں اُمت کا مجموعی طور پر فریضہ ہے کہ وہ آپس میں مر بوط ہو کر اِن جابروں ، ظالموں ، فاسقوں ، قذاقوں ، کذابوں ، قصابوں اور خدا کے باغیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور ان کی طا غوتی حکومتوں کا تختہ اُلٹ کے رکھ دے مظلوم انسانوں کو ان کے شر سے پاک کردے ، اس کے بعد اللہ کی زمین پر ، اس کے آزاد بندوں پر ربِ کائنات کی حاکمیت قائم کی جائے تاکہ پھر سے اسلام کی حقیقی بہاریں ہم دیکھ سکیں ،الحمد للہ اس بار یوم ِ آزادی کے موقع پر پاک سر زمین ، کشور حسین پاکستان کی عوام نے اِن قذاقوں سے جان چھڑانے کا عزم کر لیا ہے اور انشا ء اللہ کامیابی اس کا مقدر ہے ہمارا کام ہوتا ہے عوام کے ذہنی شعور کے بند دروازے پر دستک دینا اب دیکھنا یہ ہے کون خوش نصیب ہماری دستک پر شعور کی کُنڈی کھولتا ہے۔
Independence Day
اس سے بڑھ کر ہو گا کیا فکر و نظر کا انقلاب باد شاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمین
صاحبو :سال بھر کی گردش لیل و نہار کے بعد جب اہل وطن کو 14 اگست کی صبح دیکھنی نصیب ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت کو ابھی پاکستان کا وجود اور استحکام مطلوب ہے تبھی تو صبح آزادی ایک بار پھر طلوع ہوئی ورنہ ہمارے ارباب بست و کشاد اور ”راہزنان ”سیاست نے وہ کون سا حربہ نہیں آزمایا جو قوم کو ایک بار پھر قوم کو آزادی منانے سے روک دے اور ہمارے کیلنڈر میں چودہ اگست کا عنوان ہی بدل دے جس طرح کسی قوم کی تشکیل اور وطن کے قیام کے بعد کچھ اسباب و عوامل ہوتے ہیں اس طرح اس کی شکست و ریخت کے بھی وجوہ و اسباب ہوتے ہیں قوم یا ملت یکجہتی سے بنتی ہے عقیدہ و عمل کی ہم آہنگی سے مظبوط ہوتی ہے قوم قوت ارادی سے مستحکم ہوتی ہے اپنے صالح کردار کے بل بوتے پر زندہ رہتی ہے اور مثبت اقدار کی بنیاد پر فروغ پزیر ہوتی ہے وطن بھی ایک بے لوث قیادت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے دیانت اور امانت کے اصول اس کی عزت بڑھاتے ہیں قانون کی عملداری اس کا نظام مظبوط بناتی ہے ایثار و قربانی سے اس کے ارادے مستحکم ہوتے ہیں رواداری اور برداشت سے داخلی صورتحال خوشگوار ہوتی ہے افراد وطن کی اپنے ملک سے بے انتہا محبت اس کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اور اپنی مٹی سے وفاداری اہل وطن کو نا قابل تسخیر بناتی ہے جب کوئی قوم ڈوبنے اور کوئی ملک ٹوٹنے پہ آتا ہے تو ناگہانی بلائیں اور سماویٰ آفتیں اس کا باعث بنتی بلکہ افراد قوم اور اہالیانِ وطن کا رویہ ہی اس کا سبب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اپنے پاکستان کو ورنہ یہ رومن امپائر سے بڑی سلطنت نہیں اور اس کی تہذیب یونانی تہذیب سے زیادہ پر شکوہ نہیں ایڈورڈگبن کی زوال رومة الکبریٰ پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بڑی بڑی گرانڈیل اور پرشکوہ مملکتیں اور تہذیبیں کس طرح زوال آشنا اور انحطاط پذیرہوئیں آخر اس قوم کو کس طرح سر فرازی مل سکتی ہے جس نے قانون اور نظام کو سر نگوں کر نے کا تہیہ کر رکھا ہو ؟آخر وہ وطن کب تک مستحکم رہ سکے گا جس کے کار پردازان کا چلن صرف اور صرف کرپشن ہو اور وہ شجر ِ تہذیب کیسے برگ و بار لا سکے گا جس کے سائے میں بیٹھنے والے اس کی جڑیں کاٹنے پر تُل گئے ہوں ؟پاکستان کا قیام کوئی علمی حوالہ نہیں جو کہیں کتابوں کے انبار میں کھو گیا ہو بلکہ ایک سیاسی واقعہ ہے جسے لاکھوں کروڑوں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے رو نما ہوتے دیکھا ہے اور کوئی ایسا راز بھی نہیں ہے جو چند سیٹوں میں گم ہو کر رہ گیا ہو بلکہ ایک ایسی کھلی تاریخی حقیقت ہے جس کا ہر چھوٹے بڑے اور موافق و مخالف نے مشاہدہ کیا۔
نہ تحریک پاکستان کے نعرے مخفی تھے اور نہ ہی قیام پاکستان کے مقاصد پوشیدہ تھے تحریک کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ پر ہے اور اس کی ایک ایک کروٹ کی تاریخ گواہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنہ شاندار تصویر دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئی ہے اور اتنا خوبصورت خواب شرمندہ تعبیر ہو کر رہ گیا ہے ایک محب وطن پاکستانی اور اسلام دوست شخص کے ذہن میں یہ سوالات جوار بھاٹا کی طرح اُٹھتے رہتے ہیں اور کہیں سے ان کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا نہ ارباب ِ حکومت کے زاویہ فکر سے اور نہ ہی اصحاب ِ سیاست کے طرزِ عمل سے ۔۔۔۔۔۔لہذا آئیے ؛یوم ِ آزادی کے اس شاندار اور تاریخ ساز موقع پر عہد کریں کہ وطن عزیز کے خلاف بولنے والی ہر زبان قلم کی نوک سے کاٹ دی جائے گی اور خلاف سوچنے والا ہر دماغ قلم ہی کے ذریعے کچلا جکائے گا اور ایسے ذہن اس سر زمین سے عزم و ہمت کی کدال سے کھرچ دیے جائیں گے جن کے دریچوں میں روز و شب وطن دشمنی کے منصوبے بنتے ہیں اور بگڑتے ہیں تاریخ کے صفحات میں یہ بات ریکارڈ کے طور پر محفوظ ہے کہ دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ایک ایسا اسلامی ملک ہے کہ جس نے اپنے قیام کے فوراََ بعد اتنے بڑے چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا اور کسی بھی ملک کی مثال کہیں نظر نہیں آتی ، اللہ تعالیٰ 14اگست کا دن خیر و عافیت کے ساتھ گزار دے۔ (آمین)۔۔۔