عمران خان کے جلسے اتنے کامیاب کیسے ہورہے ہیں ؟ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کرپشن اور ڈرون حملوں کے خلاف اس کے دھرنوں اور ریلیوں میں شرکاء کی تعداد چند سوسے تجاوزنہیں کرپاتی تھی لیکن آخراب اُس کے ہاتھ ایسی کونسی گیدڑسنگھی آگئی ہے کہ جس نے ہرایک کواُس کا اسیرکرلیا ہے اور لوگ دھڑادھڑتحریکِ انصاف کوجوائن کررہے ہیں ؟بڑے بڑے سیاسی پہلوان اپنا وزن اُس جماعت کے پلڑے میں ڈالتے نظرآتے ہیں جسے چندماہ قبل ہی تانگہ پارٹی یا ون مین شو کے طعنے دئیے جاتے تھے اور ایک دم پورے ملک کا میڈیا اُس عمران خان پر سات سات گھنٹے قربان کیوں کرنے لگ گیا کہ جو کچھ ہی عرصہ قبل حامدمیر کے پروگرام میں یہ شکائت کررہاتھا کہ اُس کے جلسوں اور دھرنوں کو مناسب کوریج نہیں دی جاتی ۔اگرچہ تحریکِ انصاف کے قائدین پارٹی کی مقبولیت کی وجہ خاں صاحب کی ڈرون حملوں،منہ زورکرپشن اور سیاستدانوں کے بیرونِ ملک اثاثوں کے خلاف ٹھوس اور جاندار موقف کو قرار دیتے نظر آئے ہیں جو کہ درست بھی ہے کیوںکہ یہ تینوں مطالبات پوری قوم کی پکار ہیں کیوںکہ آج سے دس سال قبل ایک ڈکٹیٹر نے جس طرح امریکی مفادات کی جنگ میںلاجسٹک سپورٹ کے نام پر فرنٹ لائن اتحادی بن کر جو بیج بوئے قوم اس کی فصل40000ہزار جوانوں کی شہادت اور 70ارب ڈالر کے خسارے کی صورت میں اٹھاچکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور عوام کی بڑی تعداد اس صیہونی جنگ سے نکلنے کیلئے بیتاب ہے یہی وجہ ہے کہ جب عمران خاں نے امریکی ڈرون حملوں اور نیٹوسپلائی کے خلاف آواز بلند کی توقوم کا اُن کی آواز میں شامل ہوناایک لازمی امر تھا ۔عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ این آر او زدہ زرداری حکومت کی طوفانی کرپشن بنی جس کے پوری دنیا میں چرچے ہوئے اور ہم کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہے یہی وجہ ہے کہ جب خاں صاحب نے کرپشن کو اپنا ہدف بنایا تو قوم نے اس مشن میں عمران کا ساتھ دینے میں ہی اپنی نجات نظر آئی اور خاں صاحب کے اس مطالبے کو تو بے حد پزیرائی ملی جس میں انہوں نے سیاستدانوںکو اپنے اثاثے ظاہر کرنے اور سویٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ناجائزاثاثے واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا مختصر یہ کہ اِن تین عوامی مطالبات پر چلائی گئی تحریک نے تحریک ِانصاف کو پہلے ایک کارواں اور پھراسے واقعی ایک ”سونامی ”کی شکل دے دی جو بڑے بڑے جری سیاستدانوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا جسے بعض مبصرین اس لئے سراہتے نظر آرہے ہیں کہ تحریک انصاف کی آمد نے نئی نسل کو ایک نئے اور منصفانہ نظام کی نویداور امیددی ہے جس کے باعث یہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ اس دفعہ الیکشن میں ریکارڈ ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آسکتا ہے کہ لوگ موجودہ ظالمانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے عاجز آکر تبدیلی کی خواہش آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں اور اس کیلئے وہ پولنگ اسٹیشن تو کیا کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔لیکن یہاں مبصرین کی اس بڑی تعداد کو بھی کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جو عمرانی سونامی یا انقلاب کو ایک سراب قرار دیتے نظرآتے ہیں جن کے نزدیک باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت(کرپشن اور ڈرون وغیرہ کے خلاف ) وہ مقبولِ عام نعرے عمران کے منہ میں ٹھونسے گئے جو باآسانی عوام کا رخ اس کی جانب موڑ سکتے تھے اور پھر وہی ہوا 30اکتوبر کو لاہور کے مینارِ پاکستان کے سائے تلے عوام کا جم غفیر عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا لیکن یہیں سے ہی وہ کھیل شروع ہوا جس کے بارے میں ملک کے ایک بڑے اور سنجیدہ طبقے کا خیال ہے کہ اس کھیل کے تانے بانے واشنگٹن سے جا کرملتے ہیں اور اس کیلئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ 30اکتوبر کے بعدعمران کی امریکی اہلکاروں سے اندرونِ خانہ ہونے والی ملاقاتیں اور ڈکٹیٹر کی باقیات اورمتعدد جماعتوں کے رد کردہ کھوٹے سکوں کی تحریکِ انصاف میں دھڑادھڑ شمولیت نے تحریک انصاف کے تبدیلی اور امریکی مداخلت کو پاکستان میں روکنے کے عزائم کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ لاہور کے بعد گھوٹکی،قصور اور کراچی کے جلسوں میں عمران خان نے نہ تو ایک لفظ تک امریکیوں کے خلاف بولا جس کی مخالفت پر تحریکِ انصاف کی بنیاد پڑی تھی یہاں وہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی حمائت میں بھی کچھ بولنے کی جراء ت نہ کرپائے اور نہ ہی انہیں الطاف حسین جو انہیں کل تک ملک کا سب سے بڑا بدمعاش نظر آتا تھاپر لب کھولنے کی توفیق ہوئی یہ تمام حقائق اس بات کی واضح چغلی کھارہے ہیں کہ ہزاروں لوگوں کے مجمعے کے سامنے میچ فکس نہ کرنے کا اعلان کرنے والا عمران خان عوام کو بیوقوف بنارہا ہے اور دوسری بات یہ کہ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاسی جلسوں میں بے ہنگم میوزک اورمیراثیوں کے مابین کھڑا ہوکر وہ کس خلافتِ راشدہ کو لاگو کرنے اعلان کرتا ہے ؟یہاں ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی شروع سے ہی امریکہ کے اشارہ ء ابرو کی محتاج رہی ہے ایسے میں تین سابقہ وزرائے خارجہ کا اچانک تحریکِ انصاف کو جوائن کرنا بھی جس تحریک ِ انصاف کے پیچھے چھپے پردہ نشینوں کو خوب عیاں کررہا ہے آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ اُن کا ووٹ قوم کے مستقبل کا ضامن ہے اس لئے اس کا استعمال کرنے سے پہلے خوب سوچ بچارکرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہو جائے بلکہ ہاتھ ملتی رہ جائے۔قاسم علی دیپالپور