الیکشن 2013ء پر بھی سوالیہ نشان؟

Election

Election

کیا الیکشن 2013ء کو فیئر الیکشن قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ سوال آج ہر باشعور ذہن کی آجاجگاہ ہے جنوبی پنجاب سے لیکر خیبر پختونخواہ، وادیء مہران، بلوچستان اور پنجاب میں ہونے والے مظاہرے اس بات کا پیش خیمہ ہیں کہ کوئی ہاتھ ایسا ضرور تھا جس نے اپنا کام دکھایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعت اپنے صوبہ تک محدود ہو کر رہ گئی یقینا اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں پیپلز پارٹی کی ناکام معاشی پالیسیوں نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

بیروزگاری، بد ترین لوڈشیڈنگ نے صنعتی سٹرکچر کو تباہ کر کے رکھ دیا ،مہنگائی کی شرح آسمان کو چھونے لگی ،امن و امان کی صورت حال انتہائی گھمبیر ہو گئی مگر اس کے باوجود فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں ہونے والے عام انتخابات کو عوام اپنے حق خود ارادیت پر ڈاکہ تصور کر تے ہیں جنوبی پنجاب کے ایک معروف سیاست دان نواب زادہ نصراللہ مرحوم کے بیٹے اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ء نواب زادہ منصور احمد خان جو 2013ء کے انتخابات میںحلقہ پی پی 256سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور اُن کا نتیجہ انائونس ہو گیا مگر دوسرے روز اُن کے نتائج تبدیل ہوچکے تھے اُنہوں نے شدید رد عمل کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ کب تک عوام کے حق خود ارادیت کا قتل ہوتا رہے گا ،عوامی رائے کو کب تک ایک مافیا سبو تاژ کرتا رہے گا۔

پیسے کا کھیل کب تک الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرائے گا ؟ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 246ایسیپولنگ سٹیشنز کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں 200سے لیکر 300فیصد تک ووٹ ڈالے گئے کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک پولنگ سٹیشن پر 100ووٹ ہوں اور بیلٹ باکس سے 300ووٹ نکلیں بہت سے حلقہ جات ایسے ہیں جہاں سے جیت کوئی رہا تھا اور حتمی نتیجہ کسی اور کے حق میں گیا حلقہ این اے 192میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والے نتائج کے مطابق احمد عالم انور کو کامیاب قرار دیا گیا مگر دوبارہ جب غلام رسول المعروف قطب فرید کوریجہ کے حامیوں نے ریٹرننگ آفیسر کا گھیرائو کیا تو اصل نتیجہ کے مطابق غلام رسول کوریجہ 80499ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ احمد عالم انور کے 79208ووٹ تھے اسی طرح الیکشن کمیشن کے شفاف الیکشن کے انعقاد کا دعویٰ اُس وقت صراب ثابت ہوا جب این اے 172سے مسلم لیگ ن کے حافظ عبدا لکریم کو تیسرے روز کامیاب قرار دیا گیا جبکہ ابتدائی طور پر جمال خان لغاری کی کامیابی کو انائونس کیا گیا این اے 188میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی جہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں خادم حسین کی کامیابی کا اعلان ہوا مگر جب آزاد اُمیدوار اصغر شاہ نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی تو مسلم لیگ ن کے اُمیدوار ہار گئے اور آزاد اُمیدوار سید اصغر شاہ نے 90361ووٹ حاصل کر کے کامیابی پائی جبکہ مسلم لیگ ن کے خادم حسین جن کی جیت کا نتیجہ جاری کیا گیا نے 88027ووٹ حاصل کیئے این اے 177میں بھی خواجہ شیراز کی دوبارہ گنتی کی درخواست پر جب گنتی ہوئی تو مسلم لیگ ن کے اُمیدوار جس کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

امجد فاروق کھوسہ کے 8000 بوگس ووٹ نکلے این اے 176 مظفر گڑھ سے سابق گورنر ملک غلام مصطفیٰ کھر جن کی فتح کا باقاعدہ اعلان ہوا مگر وہاں دوبارہ مسلم لیگ ن کے اُمید وار سلطان محمود ہنجراء جیت کا اعلان کیا گیا جس سے عوام کے اندر شدید غصہ اور اشتعال پھیلا اسی حلقہ کے صوبائی حلقوں پی پی 251 پی پی 253 کے نتائج میں تاخیر اور ہونے والی دھاندلی کے خلاف فنکشنل لیگ کے ملک غلام مصطفےٰ کھر اور پی ٹی آئی کے اشرف رند کے ہزاروں حامیوں نے کوٹ ادو شہر کو سیل کر دیا ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کے باہر توڑ پھوڑ کی فوج کی بھاری نفر حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پہنچی حلقہ این اے 117 نارووال سے ابرارالحق پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر واضح اکثریت سے جیت رہے تھے مگر نتائج کو احسن اقبال کے حق میں بدل دیا گیا۔

Abrar-ul-Haq

Abrar-ul-Haq

ابرار الحق نے دھاندلی کے واقعات کی نہ صرف ویڈیو بنائی بلکہ انہوں نے ایک پوری سیریل بیلٹ پیپرز کی پکڑی جس کی پشت پر ریٹرننگ آفیسر کی مہر اور سامنے شیر کے نشان پر مہریں لگی ہوئی تھیں ابرارالحق اس واضح دھاندلی کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے اس بار ہونے والی دھاندلی کا واضح سراغ مل سکتا ہے اگر نادرہ متعلقہ پولینگ سٹیشن پر لگنے والے انگوٹھا جات کی تصدیق کرے تو اس تصدیق کیلئے نادرہ حکام نے الیکشن کمیشن سے پچاس کروڑ روپے مانگے ہیں وطن عزیز میں عام انتخابات کی تاریخ ایسی ہی دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے 6مارچ 1977کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قومی اسمبلی کی 19نشستوں پر رزلٹ کو تبدیل کیا تو عوام نے اس کو اپنے رائے پر ڈاکہ تصور کیا اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد عوام کو لیکر شاہرات پر نکل آیا اور باالآخر عوام کی یہ تحریک نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے اقدار کے خاتمے پر نتنج ہوئی بلکہ اسی تحریک کے نتیجہ میں وہ تختہء ِ دار تک جا پہنچے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر مسٹر سجاد احمد جان کے ذات پر عام کی طرف سے بہت سے سوالات اُٹھے اور اُنہوں نے ان سگین دھاندلیوں پر اعتراف جرم بھی کیا مشرف دور حکومت میں اُن کی سر پرستی ہونے والے 2002کے عام انتخابات میں بذریعہ دبائو وننگ ہارسز کو آمریت کی چھتری تلے بننے والے جماعت میں شامل کرایا گیا اور اُنہیں جتوا کر حکومت قائم کر دی گئی 2008کے الیکشنز میں بھی حکومتی جماعت ہر جگہ جلسے کر رہی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے وہ جلسہ جات جن سے محترمہ بے نظیر بھٹو کا خطاب ہوتا وہاں بم بلاسٹ ہوتے جو بالا خر اُن کی شہادت پر متنج ہوئے کہا جاتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سبب وہ انکشاف بھی بنا جو انہوں نے الیکشن میں متوقع دھاندلی کے بارے میں کرنے کی جسارت کرنے والی تھیں اقتدار کی حوس چو نکہ مشرف کے حواس پر چھائی ہوئی تھی اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے وہ انتخابات میں باقاعدہ دھاندلی کا پلان بنا چکے تھے اس بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی موت سے چند گھنٹے ایک رپورٹ منظر عام پر لانے والی تھیں “جمہوریت کے چہرے پر ایک اور دھبہ” کے عنوان سے یہ رپورٹ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں اپنے ذرائع کے تعاون سے تیار کی جس میں بڑے پیمانے پر بیلٹ بکسوں کو ووٹوں سے بھرنے، ووٹر لسٹوں میں ردو بدل ،اپوزیشن ووٹروں کو حراساں حتیٰ کہ قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو یہ رپورٹ امریکی سینیڑوں ارلین سپیکٹر اور رکن ایوان نمائیندگان پیٹرک کینڈی کے حوالے کرنا چاہتی تھیں کیونکہ انہیں بش انتظامیہ پر اعتماد نہیں تھا جو مشرف حکومت کی زبردست حامی تھی رپورٹ میں یہ باور کرایا گیا کہ مشرف حکومت امریکی امداد کو سیاست دانوں کے خلاف اوچھے ہتھ کنڈوں کیلئے استعمال کر رہی ہے۔

امریکہ کی طرف سے دیے گئے آلات میں سے 90%کو سیاسی مخالفین کی نگرانی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اس سلسلے میں ایک ایسا میگا کمپیوٹرنصب کر لیا ہے جو پاکستان میں کسی بھی کمپیوٹر کو نہ صرف ہیک کر سکتا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے نظام سے منسلک ہے اس سے نتائج کو الٹا جانا ہے میگا کمپیوٹر کو انتخابی فہرستوں میں ردوبدل کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اس بات پر یقین کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بے نظیر کو اس رپورٹ کی بنا پر بھی قتل کیا گیا ہوحالیہ الیکشن میں قطعی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن کی جیت کے بارے میں عوام کے اندر ایک ابہام باقی ہے جسے میڈیا نے بھی اُجاگر کیا۔

وطن عزیز میں اژخاص اور افراد کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑی خامی یہی رہی ہے کہ اس میں زیادہ تر وہ لوگ منتخب ہوتے ہیں جو اپنے حلقہ نیابت کے ووٹروں کی اکثریت کے بجائے اقلیت کے نمائندے ہوتے ہیں یہ خامی ایسی ہے جس سے جمہوریت کی روح تباہ ہوجاتی ہے جسے آج تک نظر انداز کیا جاتا رہا موجودہ طریق انتخابات میں ووٹروں کے سامنے اُمیدوار کی شخصیت اور اثرو رسوخ کا سوال بھی توجہ طلب ہوتا ہے جس کی بنا پر پارٹیاں ایسے اشخاص کو تمام خامیوں اور لوٹ مار کے گزشتہ ریکارڈ کے باوجود قبول کرنے کیلئے تن من دھن کا زور لگا دیتی ہیں جب ہم پارٹی سسٹم میں شخصیات کے بجائے پارٹیوں کے منشور کو مد نظر رکھیں گے تو اس سے عام ووٹروں کا سیاسی شعور اور سوچ کا میعار بہتر ہو گا ہر جگہ مقامی جھگڑوں اور لوکل سیاست کی بنیاد پر جو گروپ بن جاتے ہیں۔ اشخاص و افراد کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن میں یہ گروپ بندیاں قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں جبکہ پارٹی سسٹم میں اس کا امکان بہت کم اور محدود ہو گا۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک