لاہور (جیوڈیسک) نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ٹیم سلیکشن سے 95 فیصد سفارشی کلچر کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس پر عمل جاری رکھا گیا تو چارسال بعد پاکستان دنیا کی نمبر ایک ٹیم بن جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں صرف تین ماہ کے لیے الیکشن کرانے پی سی بی آیا تھا مگر مفاد پرستوں نے عدالتوں کے ذریعے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اب عدالتوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ غیرسنجیدہ عرض داشتوں کو اہمیت دینے سے ناصرف پاکستان کرکٹ کو نقصان ہوا بلکہ توہین عدالت بھی کی گئی۔
کہا کہ پی سی بی میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے سفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انہوں نے وقار یونس اور مشتاق احمد سمیت دیگر پیشہ ور کوچز کا تقرر کیا۔ نجم سیٹھی کے بقول سابقہ بورڈ کے غلط چلن کے سبب پاکستانی کرکٹ دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔
میں نے پی سی بی کا مقدمہ لڑا اور پاکستان کی آئی سی سی میں اہمیت بحال کرائی۔ بھارت سے چھ سیریز کا معاہدہ طے کیا۔ اگر میرے دور کی پالیسیز کوچلنے دیا گیا تو چار برس بعد پاکستان دنیا کرکٹ میں اپنا لوہا منوا لے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں منتخب حکومتوں کی طرح چیئرمین کرکٹ بورڈ کو بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ٹیم جیت جائے تو لوگ کپتان کوکندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور ہارنے پرگالی چیئرمین کو پڑتی ہے ، جس میں ماضی کے کھلاڑیوں اور سابقہ بورڈ سربراہان کی سیاست کار فرما ہوتی ہے۔ سیٹھی کے مطابق مصباح الحق کو عالمی کپ 2015 تک کپتان مقرر کرنا ایک آسان فیصلہ تھا۔
کچھ لوگ آفریدی کو کپتان دیکھنا چاہتے تھے، ٹیم میں گروپ بندی کو ہوا مل رہی تھی، میں نے اپنے انتظامی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے مصباح کے ریکارڈ اور قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا اور ٹیم کو تقسیم ہونے سے بچالیا۔
ایک سوال کے جواب میں نجم سیٹھی نے کہا کہ مجھے میرے پرانے دوست اور سابق ٹیسٹ اوپنر آفتاب گل نے کرکٹ بورڈ جاتے وقت روکا تھا کہ آپ سانپوں کی دنیا میں کیوں جا رہے ہیں مگر اس وقت تک میں سانپوں کی دم پر پاوں رکھ چکا تھا۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔