مسیحا یا ایجنٹ

zeeshanansari

zeeshanansari

راقم پچھلے سال ماہ جولائی میں اپنے M.A Political Sciance (Part 2) کے پیپر دے رہا تھا کہ دوسرا پیپر (تحریک پاکستان) دے کر جب واپس گھر پہنچا تو پتہ لگا کہ والدہ صاحبہ پر فالج کا حملہ ہوا ، اور وہ اس وقت آدمکے چیمہ میں ایک نجی ہسپتال میں داخل ہیں ۔ تحصیل ڈسکہ ماضی میں پاکستان کی سب سے بڑی تحصیل کا درجہ رکھتی تھی، ڈسکہ میں سیالکوٹ چیمبر کے ممبران کے تعاون سے ڈرائی پورٹ ٹرسٹ اور سیالکوٹ انٹرنیشنل ا ئیر پورٹ جیسے منصو بوں کو باآسانی پایا تکمیل پہنچا کر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ مگر بد قسمتی سے ہم لوگ تعلیم و صحت کے شعبوں میں ابھی تک خاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ خیر اپنے پوائنٹ کی طرف واپس آتا ہوں،والدہ صاحبہ کو ایمر جنسی طور پر قریبی ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا، مگر بد قسمتی سے MBBS ڈاکٹر صاحب کے پاس دیگر ہسپتالوں کی طرح کوالیفائیڈ سٹاف نہ ہونے کے برابر تھا۔ والدہ کی سنجیدہ حالت کو دیکھتے ہوئے ان کو آدمکے چیمہ میں ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا، وہاں ڈاکٹرکی قابلیت اور مسیحا پن کی بدولت والدہ کی حالت دن بدن بہتر ہوتی گئی۔

hospital

hospital

ڈاکٹر نے کمیشن کے چکر میں نہ آتے ہوئے بے فضول ٹیسٹوں اور ادویات سے ہمیں کسی حد تک محفوظ رکھا۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں نجی ہسپتالوں کے ساتھ Medical Test Lab والوں کی کمیشن طے ہوتی ہیں، اور مریض کو ایک لمبی لسٹ مہیا کر دی جاتی ہیں، جسکی فیس ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ کے برابر بھی ہوسکتی ہیں۔ دوران علاج ہمیں بھی CT Scanکروانا پڑا، اور بد قسمتی سے یہ سہولت صرف ایک نجی ہسپتال میں ہی میسر تھی جس کی فیس 5000 اور رپورٹ بھی قابل تصدیق نہیں ( ہماری رپورٹ کو سیالکوٹ سول ہسپتال کے ڈاکٹروں نے قبول کرنے انکار کردیا تھا اور ہمیں دوبارہ ٹراما سنٹر سے ٹیسٹ کروانا پڑے)قارئین میرا مقصد اپنی نجی کہانی سنانا ہرگز نہیں بلکہ اعلیٰ حکام ، کاروباری و NGO,sکی توجہ شعبہ صحت کی طرف گامزن کروانا ہے، جہاں پر نام نہاد ڈاکٹر کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔

نجی طور پر چلنے والے ہسپتال میں ڈاکٹر کم اور قصاب یا ایجنٹ زیادہ بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں، ہرروز میڈیا کسی نہ کسی ڈاکٹر کی غفلت کی story شائع کرتا ہے۔ پچھلے ہفتے چکوال سے ایک نیوز آئی کہ دوران ڈیلیوری کئے جانے والے آپریشن میں ڈاکٹر کی غفلت سے تولیہ نوجوان عورت کے پیٹ میں چھوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے خاتون کو ہیپاٹائٹس سی ہو گیا اور اُس کو مزید دو آپریشن کروانے پڑے۔ خاتون کے خاوند ثاقب برکات ولد برکات احمد ساکن دھروگی نے تھانہ سٹی چکوال میں مقدمے کے اندراج کی تحریری درخواست دی۔ ثاقب نے پولیس کو بتایا کہ اُس کی بیوی سعدیہ نورین، ڈاکٹر اسماء کے پرائیویٹ کلینک چکوال میں داخل ہوئی اور 36 گھنٹوں میں وہاں پر اُس کی بیٹی آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئی۔ رات دن رکھنے کے بعد ڈسچارج رپورٹ میں ہیپاٹائٹس سی رپورٹ کا نتیجہ منفی تحریر کیا۔

آپریشن کے بعد سعدیہ نورین کو پیٹ میں ہلکا ہلکا درد رہنے لگا۔ مذکورہ لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا تو اُس نے گولیاں لکھ کر دیں مگر درد پھر بھی ہوتا رہا۔ بعد میں سرجن ڈاکٹر نے سٹی سکین کرانے کا کہا تورپورٹ میں سعدیہ نورین کے پیٹ کے اندر تولیہ پایا گیا اور پھر ایک بڑے آپریشن کے بعد ملٹری ہسپتال میں اُس کا آپریشن ہوا اور کپڑے کا ایک کپڑا جو کہ آنتوں سے لپیٹا ہوا تھا باہر نکلا۔ آنتوں میں پیپ پڑی ہوئی تھی۔ سعدیہ پروین کے آپریشن کے بعد اُس کی ہیپاٹائٹس سی کی رپورٹ مثبت آئی۔ مزید برآں ڈاکٹر کی غفلت کی ایک نیوز ڈسکہ سے بھی شائع ہوئی جس میں ہمارے ہردل عزیز دوست کامران افضل ڈاکٹر کی غفلت و لاپرواہی کے باعث اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔

اس کے treatment کے کچھ پہلوں یہ ہیں۔22جون 2012کو کامران کو پیٹ کی شدید تکلیف ہونے کے باعث اسٹیڈیم روڈ پر واقع نجی ہسپتا ل ( شاہد فاروق ہسپتال) کے سرجن ڈاکٹرشاہد فارو ق کو چیک کروایا،ڈاکٹر نے پیسوں کی لالچ میں آکر اپینڈکس کے مرض کی تشخیص کرتے ہوئے فوری آپریشن کا مشورہ دیا اور آپریشن بھی کردیا،آپریشن سے قبل کسی ضروری ٹیسٹ بمعہ شوگر ،بلڈ پریشر،بخار، HIV،ہیپاٹائٹس حتی کہ اپینڈکس کے مرض کا کوئی بھی ٹیسٹ نہیں کیا گیا،عام طور پر یہ آپریشن 20سے 30منٹ تک کا ہوتا ہے جبکہ نان کوالیفائیڈ سٹاف کے ساتھ کامران افضال کا آپریشن 2گھنٹے جاری رہا، مریض کو بے ہوش کرنے اور آپریشن کے بعد دوبارہ ہوش میں لانے کے لئے ایک کوالیفائیڈ ایم بی بی ایس ڈاکٹرکی ذمہ داریاں ہسپتال کے جنریٹر آپریٹر کمانڈو نامی ملازم نے ادا کیں جبکہ آپریشن کے دوران ہیلپر کے فرائض بھی نان کوالیفائیڈ سٹاف نے ادا کیں، اگلے روز اسے ڈسچارج کردیا گیا۔

shaikh zayed hospital

shaikh zayed hospital

لیکن 24جون کو کامران کی حالت دوبارہ خراب ہونے پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں نااہل ڈاکٹر نے کامران کا ایک اور آپریشن کر ڈالا اور کامران کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گئی لیکن ظالم اور پیسوں کا لالچی ڈاکٹر” سب اچھا ہے ”کے راگ الاپتا رہا، 6 روز بعد مریض کی ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا جس پر کامران کے لواحقین اسے شیخ زید ہسپتال لاہور لے گئے جہاں تجربہ کار ڈاکٹر ز نے کامران افضال کے مکمل ٹیسٹ کیے ، رپورٹس آنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مریض کو اپینڈیکس کا مرض تھا ہی نہیں ۔اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آپریشن سے قبل کوئی ضروری ٹیسٹ نہیں کیا گیا، شوگرلیول 650 تک پہنچنے کی وجہ سے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور آخر کار کامران اللہ کو پیارا ہو گیا، کامران افضال کی 6 ماہ قبل شادی ہوئی۔ابتدائی پوسٹ مارتم رپورٹ اور ذرائع کے مطابق آپریشن میں انتہائی بے احتیاطی برتی گئی جو نااہلی کا واضح ثبوت ہے تاہم ڈاکٹر شاہد فارو ق کی تقدیر کا فیصلہ تو فرانزک رپورٹ کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر شاہد فاروق اس سے قبل بھی ایک درجن سے زائد افراد کی موت کا سبب بن چکا ہے۔جن کی تفصیل میڈیا کے ذریعے جلد عوام الناس کے سامنے پیش کی جائیگی۔ راقم کے نزدیک اگر اعلیٰ حکام نے پاکستان میں صحت کے شعبے پر توجہ نہ دی، اور جگہ جگہ قائم نجی ہسپتالوں کو راہ راست پر نہ لائے تو وہ دن دور نہیں جب ڈاکٹر مسیحا کی جگہ Businessman بن جائیںگے۔ اور مریضوں کی زندگی کا سودا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

عوامی رائے کے مطابق حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سرکاری طور پر قائم ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں کو ترقی دی جائے اور سرکاری ڈاکٹروںکو ہر گز نجی ہسپتال چلانے کی اجازت نہ ہوکیونکہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو اپنے نجی ہسپتالوں کی طرف refer کردیتے ہیںاور غریب و بے سہارا مریضوں سے ہزاروں روپے کمالیتے ہیں۔ بیشتر مریض علاج کروانے کی بجائے درد برداشت کرتے ہوئے اللہ کوپیارے ہوجاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس ڈاکٹروں کو دینے کے لیے بھاری فیس نہیں ہوتی۔ راقم ہرگز ڈاکٹروں کے خلاف نہیں بلکہ خود میڈیکل سٹوڈنٹ رہاہے اور اس شعبہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ رکھتا ہے۔ مگر میں ان ڈاکٹروں کے ضرور خلاف ہوں جو مسیحا کی بجائے ایجنٹ کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے میڈیکل ریپ اور لیبوں کی کمیشن حاصل کرتے ہیں اور غریب عوام کو بے جا مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔ میر ی اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمارے ہر دل عزیز دوست کامران افضال کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور غفلت اور لاپرواہی کا مظا ہرہ کرنے والے ڈاکٹر کو دنیا و آخرت میں سزا دے۔آمین تحریر : ذیشان انصاری