ناروے (جیوڈیسک) ناروے تعلق رکھنے والے تین دوستوں نے چوبیس گھنٹے میں سب سے زیادہ ممالک میں سفر کرنے کا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ انھوں نے یہ ریکارڈ یورپ کے انیس ممالک کا سفر کرکے بنایا۔
سابقہ ریکارڈ چوبیس گھنٹے کے دوران سترہ ممالک کا سفر کر کے بنایا گیا تھا۔ اس مہم کے دوران یہ دوست ہر ملک کی سرزمین پر اُترے اور ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی خبروں کی صورت میں اپنی وہاں موجودگی کے شواہد بھی پیش کیے۔ 39 سالہ گنر گارفور، 42 سالہ ٹے ینگ پاک اور 40 سا اوئسٹن جوپوک نے سفر کا آغاز بائیس ستمبر کی نصف شب کو یونان سے کیا۔
یونان سے انھوں نے شمال مغربی راستہ اختیار کیا اور اس روٹ پر چلتے ہوئے بلغاریا، مقدونیا، کوسووو، سربیا، کروشیا، بوسنیا، سلووینیا، آسٹریا، ہنگری، سلوواکیہ، چیک ری پبلک، جرمنی،نیدرلینڈز، بیلجیئم، لکسمبرگ ، فرانسم سوئزرلینڈ سے گزرتے ہوئے لیختینستائن پہنچے۔ اگرچہ ابھی چوبیس گھنٹے پورے ہونے میں وقت باقی تھا مگر خراب موسم کی وجہ سے وہ بیسویں ملک، اٹلی میں داخل نہ ہوسکے۔ تاہم وہ مایوس ہرگز نہیں تھے کیوں کہ ان کا مشن مکمل ہوچکا تھا۔
سفر کے اختتام پر گارفور نے کہا،’’ یہ ایک زبردست سفر تھا۔ ہم نے پرانا ریکارڈ دو ممالک کے فرق سے توڑ ڈالا۔ ہم اس کام یابی پر بے حد خوش ہیں، اور چوبیس گھنٹے تک اس کا جشن منائیں گے۔‘‘ ایک کمپنی کا تعاون حاصل ہونے کی وجہ سے یہ سفر تینوں دوستوں کی جیبوں پر بھاری نہیں رہا تھا۔
وقت سے بندھے ہوئے اس نوع کے سفر کے لیے پیشگی منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ ان مسافروں نے اس سلسلے میں خاصی تیاری کی تھی۔ سفر کا زیادہ حصہ انھوں نے کرائے کی گاڑیوں میں طے کیا۔ البتہ مقدونیہ سے سربیا اور آسٹریا سے جرمنی پہنچنے کے لیے ہوائی جہاز کا سہارا بھی لینا پڑا۔
دوران سفر جوپوک گاڑی چلاتا رہا تھا، گارفور گائیڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا جب کہ ٹے کے ذمہ اشیائے خورونوش کی فراہمی تھی۔ ان کے پاس کسی ہوٹل یا ریستوراں وغیرہ میں بیٹھ کر کھانے پینے کا وقت نہیں تھا، چناں چہ وہ گاڑی میں ہی کھاتے پیتے رہے، اور ایندھن بھروانے کے وقفوں میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے رہے۔ سفر کے دوران وہ اپنے تجربات اور موجودگی کے مقامات سے ٹویٹر کے ذریعے فالوورز کو آگاہ کرتے رہے۔
ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کی ان دوستوں کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ اس برس مئی میں بھی انھوں نے چوبیس گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ ممالک کے سفر کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ریکارڈ کو برابر ہی کرپائے تھے۔ دوسری کوشش سے پہلے گارفور نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بار وہ ضرور کام یاب ہوں گے کیوںکہ پہلی ناکام کوشش کا تجربہ ان کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
اس سفر میں خوش قسمتی بھی ان کے ہمرکاب رہی اور سب کچھ ان کی منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا چلاگیا۔ گارفور کا کہنا ہے کہ سوئزرلینڈ کے خراب موسم کے سوا انھیں کوئی اور دشواری پیش نہیں آئی۔اس کے علاوہ یونان اور بلغاریا کی سرحد پر انھیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ساتھ موجود فوٹوگرافر نے سرحدی محافظ کی تصویر کھینچی مگر اسے یہ بات اچھی نہیں لگی۔
بہرحال معاملہ سنگین ہونے سے پہلے ہی سلجھ گیا۔ پھر کوسووو کی سرحد پر گاڑیوں کی اتنی طویل قطار لگی ہوئی تھی کہ چیکنگ کے مراحل سے گزرنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے۔ چناں چہ انھوں نے کرائے کی کار وہیں چھوڑی اور پیدل سرحد عبور کی۔تینوں دوست ان دنوں اپنے اس ریکارڈ ساز سفر کی دستاویزی فلم بنانے پر غور کررہے ہیں۔