لاہور (جیوڈیسک) پاکستان میں آزادی رائے کے لئے کی جانے والی جدوجہد اتنی ہی پرانی ہے جتنی پیارے وطن کی عمر۔13 مئی 1978 طالع آزماوٴں کا سیاہ جبکہ صحافت کا روشن دن تھا۔ اس روز حق اور سچ کہنے کی پاداش میں صحافیوں کے جسموں کی کھال کوڑوں سے ادھیڑ دی گئی۔
پاکستان میں آزادی اظہار کا سفر پھولوں سے نہیں، کانٹوں سے بھرا ہے۔ جان و مال کی قربانیاں صحافت کے ماتھے کا جھومر بنیں،سچ لکھنے اور بولنے والوں نے اپنا خون دیا،بھوک بھی برداشت کی۔ جنرل ضیاء کے حواریوں کو بھی آزادی اظہار ایک آنکھ نہ بھایا۔ 13 مئی 1978ء، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور ناصر زیدی کو بیدردی سے کوڑے مارے گئے۔
ایک اور ڈکٹیٹر کا دور آیا، جنرل پرویز مشرف نے بھی اہل قلم کو آزمایا، ڈنڈے برسائے، چینل بند کئے۔ لیکن آزادی اظہار کے متوالے اس آمر کو بھی للکارتے رہے۔اس جدوجہد کے سپاہیوں کے عزم اور قربانیوں کو انہی کے ساتھیوں نے اپنے کیمروں میں محفوظ کیا۔ آج ایک بار پھر صحافی آزادی رائے کے حق کے لئے سڑکوں پر ہیں۔ اہل قلم کہتے ہیں کہ حق اور سچ کی جدوجہد نہ کبھی تھمی نہ کبھی مغلوب ہوئی، یہ وہ سفر ہے جو رکے گا ضرور مگر آزادی اظہار کی منزل پر پہنچ کر۔