ایک دوسرے کے کام آنا

Society

Society

ایک پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جیون اے دکھ ونڈانا تے اگ بیگانی سڑنا
مرنے دی خاطر جینا تے جینے دی خاطر مرنا
جیون اے ڈھینا ڈھونا جیون اے کھینا کھونا
جیون اے ٹردے رہنا تے کوئی پڑا نہ کر نا

ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا بنیادی نقطہ آغاز ہے دنیا کے ہر مذہب ہر نبی اور درد دل رکھنے والے نے انسانیت کی بلا امیتاز خدمت کی تلقین کی ہے دین اسلام تو ہے ہی سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے بدقسمتی سے انتہا پسندوں نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے پاکستان میں تو یہ صورت حال مزید ابتر ہو گئی ہے حالانکہ ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے آج ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔

اخوت اس کو کہتے ہیں ،کانٹا چبھے جو کابل میں
عرب کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے

بدقسمتی سے ہم ایک قوم کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے مجھے تو محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب ہجوم ہیں، تماشائی ہیں ایک دوسرے کو دکھ میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اس کیفیت سے باہر نکلنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔ ہم قوم اس وقت بن سکتے ہیں جب لالچ، بغض، مفاد پرستی کے خول سے باہر آجائیں ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اور مسلمان کا سب سے بڑا وصف اخوت ہے، ہمدردی ہے، ایثار ہے، قربانی ہے اور محبت ہے اور یہی پیغام خلیل اللہ ہے، ہر عید کا درس ہے اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات جن کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔

درد دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں

Muslim

Muslim

ہر شخص بالخصوص ہر مسلمان میں یہی جذبہ کارفرما ہونا چاہیے کہ جس سے جتنی ہو سکے دکھی انسانیت کی خدمت ضرور کرے بلا شبہ اللہ رب العزت دلوں کے بھید جانتے ہیں ہمیں خلوص نیت سے بے لوث خدمت کرنا ہوگی ہر دل کی خواہش ہونی چاہیے کہ میں کسی کے کام آسکوں۔ بے بس، اپنے سے کمزور اور معاشرہ کے کچلے اور سسکتے لوگوں کی دعائیں لینا ہے اس میں کوئی سیاست، کوئی نمائش نہیں ہونی چاہیے یہ عمل صرف اور صرف اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کیلئے ہے کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو ایثار و محبت کیلئے منتخب کیا یہی جذبہ اس کی تخلیق کی بنیاد ہے ہم تو پھر مسلمان ہیں جن کو حکم ہے کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا ہے تو تم کامل مسلمان نہیں۔

وہ سفید پوش، غریب، مستحقین، نادار لوگ جو کم وسائل کی وجہ سے بے بس ہوگئے وہی عظیم جس نے نئی شمع اک جلا دی کے مصداق معاشرہ کے مخیر اور دل میں درد رکھنے والے ان کی بلا امتیاز خدمت کریں میرے خیال میں یہی عبادت ہے امام غزالی فرماتے ہیں اللہ تبارک تعالیٰ کو عاجز لوگ بہت پسند ہیں لیکن دولت مند عاجز انتہائی پسند ہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ رہنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ صالح اعمال کریں کیونکہ درخت اپنے پھل اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ ہماری کوشش اور خواہش بس یہی ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سفید پوش، غریب، مستحقین، نادار لوگ جو کم وسائل رکھتے ہیں کی خدمت کریں تا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو سکے یہی ایک مسلمان کا مقصود و حاصل ہے اللہ ہماری عاجزی کو قبول کرے (آمین)

انپے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

Ilyas Mohammad Hussain

Ilyas Mohammad Hussain

تحریر: الیاس محمد حسین