62-63کی سرگذشت

Pakistan Man

Pakistan Man

اشرف المخلوقات اُسی کو کہا جاتا ہے جس میں سوچنے کی صلاحیت ہوتی ہے، سمجھنے کی لیاقت ہوتی ہے، اچھے اور بُرے کی پہچان رکھتا ہو، دکھ درد کے مواقع پر انسان کا دل روئے اور اس کی آنکھیں نَم ہو جائیں ، خوشی کے مواقع ہوں یا کسی کامیابی کا زوم، اس کا چہرہ گلنار دکھائی دے اور انسان کے تیور سے ہی اندازہ لگا لیا جائے کہ اس کا دل اگر درد سے خالی ہے اور اس کے محسوس کرنے کی حِس مردہ ہو چکے ہیں ، کسی کی تکلیف پر اس کے جذبات نرم نہ پڑیں تو پھر دیگر مخلوقات اور اشرف المخلوقات میں کیا فرق رہ جائے گا۔

آج کل بھی انسانوں میں ایسا ہی تضاد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کہا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔ کتنا آسان اور سہل طریقہ ہے کہ کہو کچھ اور کرو کچھ، برائی اور اچھائی کو جاننے اور چانچنے کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا ہے ۔ سب ہی بشمول اداروں کے مختصر وقت میں اور جلد نتیجہ پر پہنچنے والے عمل پر کاربند ہیں ۔ انسان کے دل اور اس کے ضمیر کو گواہ بنایا گیا اور کسوٹی قرار دیا گیا، اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ہمارے ملک میں آج کل فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جن جن کو 62.-63کی چھلنی میں چھاننے کی کوشش کی وہ صرف ایک دکھاوا ہی تھا۔ کیونکہ بعد میں سب کو ہی تقریباً الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قادری صاحب نے جو کچھ کہا تھا۔

وہ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ یہ سارے کا سارا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ چوراسی سالہ وزیراعظم اور پچاسی سالہ چیف الیکشن کمشنر کو لاکر عوام کو بیوقوف بنایا گیا ہے ۔ اس عمر میں لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں مگر انہیں خود اپنی ہی یاد داشت کا پتہ نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں، کبھی لیپ ٹاپ چوری کروا دیا، تو کبھی فائل گم کر وا دی، اور آج تو نگراں وزیراعظم نے بھی (ایک میڈیا چینل کے مطابق) بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالا اور اپنے بیٹے کو اعلیٰ عہدے پر نوکری دے دی ہے۔ جو بھی اس ملک کا حکمران آتا ہے وہ عوام کو تو کچھ نہیں دیتا مگر اپنے عزیزوں سمیت بہتی گنگا میں ضرور ہاتھ دھوتا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہمارے حکمرانوں کے ضمیر میں کسی قسم کا کوئی تردد ہی باقی نہیں رہا ہے۔ اگرچہ وہ خود ہی سب درست ہونے کی نوید دیتے رہتے ہیں۔ انسان جب کوئی برائی یا خلافِ توقع کام کرتا ہے اور اس کے شور کی کھنک دل میں محسوس نہیں کرتا تو وہ گناہ کرتا ہے۔

اور ان کی سنگینی اور شناعت اس کی دل کی کیفیت کو زیرو بنا دیتی ہے۔ کسی پر ظلم کرتا ہے اور اس میں رحم کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو ایسا انسان حقیقت میں انسانیت کی آخری اور سطحی سوچ کا مالک ہوتا ہے بلکہ اس میں انسانیت کے لئے درد ہی نہیں ہوتا۔کیا ہمارے یہاں 62-63کے شِک پر مکمل عمل در آمد ہوا اس کے بارے میں آپ بھی بہتر جانتے ہیں ۔ اور یہی جانتے ہیں کہ اس شِق کی صر ف دھجیاں ہی بکھیری گئیں ہیں اس پر عمل در آمد تو دور کی بات ہے۔ صرف دکھاوا کیا گیا اور پھر سے سب کو کلیئر قرار دیا گیا۔ اگر عوام کا فیصلہ درست آگیا۔

Allah

Allah

تو یہی آخری اُمید ہو سکتا ہے ملک کے سنورنے کا ورنہ تو پھر اس ملک کے عوام کا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ وہی لوگ دوبارہ اسمبلی میں آنے والے ہیں ، فرق صرف اتنا ہوگا کہ سیاسی جماعت شاید بدل جائے مگر چہرے وہی پرانے ہی ہونگے ۔ مطلب صاف ہے کہ باری لینے کا کھیل جاری و ساری ہے۔گستاخی معاف! مگر میں یہاں پر چند الفاظ ضرور تحریر کرنے کو ترجیح دوں گا ۔آج ہمارا معاشرہ جہاں مختلف النوع بیماریوں اور خرابیوں کے دور سے گزر رہا ہے وہیں ملک میں ایک وبا 62-63کی شِق بھی ہے۔ کہا جارہا تھاکہ اس پر سے ہر امیدوار کو گزرنا پڑے گا مگر اس پر سے گزارنے کا عمل محض ایک ڈھونگ ثابت ہوا اور23000امیدوار (کچھ کو چھوڑ کر)پورے کے پورے خیر و آفیت کے ساتھ گزر گئے۔

کیا ان سب کے ہاتھ اور پائوں بالکل صاف تھے، کیا ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے ہاتھ صاف نہ ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان خطا کا پُتلا ہے اور وہ کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرتا ہے۔ اگر سب ہی صاف و شفاف تھے تو آج ہمارے ملک کا یہ حال کیوں ہے؟ اس طرح تو پھر مشرف کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیئے تھی کیونکہ بقول ان کے انہوں نے جو کچھ کیا وہ سب وزیراعظم کی سفارش پر کیاتھا۔میں خدا نہ خواستہ ان سے ہمدردی کا اظہار نہیں کر رہا مگر یہ کہنے میں ضرور حق بجانب ہوں کہ جس طرح سب کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ان میں سے چند کو مشروط اور غیر مشروط اجازت بھی دی گئی ہے اسی طرح کاروائی ہوتی رہے اور انہیں بھی مشروط ہی سہی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ملنا چاہیئے تھا۔

آدابِ معاشرت بے حد ضروری امر ہے اور معاشرے میں بسنے والے عوام کی زندگی کو خوشگوار بنانے والے سنہرے اصولوں کو بھی مدنظر رکھنا لازمی ہے تبھی تو معاشرے میں کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہ ہوگا، چنانچہ آپ الیکشن کے ساتھ ساتھ یہاں کے آپسی تنازع اور جھگرے ، لڑائی کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے بھی کردار ادا کریں، اگر ہم سب کے دلوں میں محبت و الفت ہوگی، ہمدردی و غمخواری ہوگی، اخوت ہوگی، مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوگی، تو یہ ملک جنت نظیر ہو سکتا ہے۔

بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے رابا کسے کارے نہ باشد
کسی بھی معاشرے اور وہاں بسنے والے لوگوں کی زندگی کو خوبصورت اور خوشگوار بنانے کے لئے آدابِ معاشرت کے تئیں بیداری ضرور ہے مگر یہاں عوام کا مقدر جاگ کر ہی نہیں دے رہا ہے۔ ایوانِ اقتدار میں بیٹھے لوگ اور اداروں کے درمیان رسہ کشی کا کھیل جاری ہے .

Railway Diesel

Railway Diesel

جس کی وجہ سے عوام ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں، کاروبار ہے نہیں، نوکری ہے نہیں ، بجلی گیس ہے نہیں، اداروں کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے ہیں نہیں، ریلوے کے پاس ڈیزل کے پیسے ہیں نہیں، بجائے اس کے کہ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لئے سب مل کر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے سب ہی آپسی چپقلش میں الجھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے برابری پر آنے کے لئے ہمیں اپنی معیشت میں ایک نئی روح پھونکنے کی فوری ضرورت ہے مگر اس طرف کوئی راغب نظر نہیں آ تا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔خدا خیر کرے۔

ملک کا کوئی بھی شہری ایسا نہیں ہے جس نے چین کی بانسری نہ بجائی ہو صرف یہ سُن کر کہ آرٹیکلز 62-63پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا مگر اب سب ہی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہمارے یہاں کبھی انصاف نام کی کوئی چیز ہوگی بھی یا نہیں! ملک کا پیسہ کھانے والوں کو کبھی جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے گی یا نہیں۔ ہر کوئی بہت ہی آسانی سے ملکی خزانہ خالی کرکے بچ بھی جاتا ہے جبھی تو ایسے لوگوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔

اور وہ دوبارہ آکر پھر وہی کام دہراتے ہیں ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ الیکشن کمیشن نے اسٹارٹ تو شاندار لیا تھا مگر ان پر دبائو بڑھا کر سب نے اپنی اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیا تاکہ وہ ہر حال میں الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیںاور پھر سے قومی خزانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی سعی کر سکیں۔ آئین کے آرٹیکلز 62-62پر عمل در آمد کرانے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا بلکہ آپ ہی لوگوں کو اس پر عمل در آمد کرانا ہوگا ۔ اگر شفاف طریقے سے یہ عمل مکمل کیا جاتا تو کرپٹ افراد کی بڑی تعداد کو الیکشن میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔اختتامِ کلام بس اتنا کہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے اگر اس پر مکمل عمل در آمد ہو جائے تو بعد میں قوم کو پریشانی کا سامنا اور رونے کی نوبت نہ پڑے۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی