ترکی (جیوڈیسک) حکام کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی شمالی علاقوں میں پیش رفت کے سبب گذشتہ 24 گھنٹوں میں تقریبا 66 ہزار شامی پناہ گزین سرحد عبور کر کے ترکی پہنچے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں زیادہ تر شام کر کرد نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔
ترکی نے جمعے کو شام سے ملحق اپنی سرحد کو ان شامی پناہ گزینوں کے لیے کھول دیا جو دولت اسلامیہ کے حملوں کے خوف سے کو بانی شہر کو چھوڑ کر ترکی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحد کی پناہ گزین ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ امدادی کوششوں میں اضافہ کر رہی ہے کیونکہ مزید ہزاروں شامی پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف تین سال سے جاری بغاوت کے نتیجے میں شام اور عراق سے متصل ملک ترکی میں اب تک آٹھ لاکھ 47 ہزار سے زیادہ پناہ گزین قیام پزیر ہیں۔ ترکی کے نائب وزیر اعظم نعمان کورتولموش نے سنیچر کو اخباری نمائندوں کو بتایا ’آج تک ترکی میں داخل ہونے والے شامی کردوں کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔‘ لیکن ترکی یہ تعداد 66 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے ترکی حکومت کے ساتھ مل کر ایک بیان میں کہا ہے کہ کوبانی کی جنگ کے نتیجے میں مزید افراد ترکی آ سکتے ہیں اس لیے امدادی کوششوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سال سے جاری شامی شورش کے دوران وہاں (کوبانی میں) لوگ نسبتا محفوظ طور پر زندگی بسر کر رہے تھے اور دورن ملک دو لاکھ پناہ گزینوں کو وہاں آسرا ملا ہوا تھا۔
برطانیہ میں موجود انسانی حقوق کے متعلق شامی مبصرین کا کہنا ہے کہ کم از کم 300 کرد جنگجوؤں نے دولت اسلامیہ کی پیش رفت کے مد نظر کو بانی کے علاقے کے دفاع کے لیے شام کی کرد فوج میں شمولیت اختیار کی ہے۔ بہرحال مبصرین نے اس گروہ کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔ مبصر رمی عبدالرحمن نے کہا’دولت اسلامیہ کوبانی کو جسم پر ایک گومڑ کے طور پر دیکھتا ہے اور ان کے خیال میں یہ ان کے راستے میں ایک رخنہ ہے۔‘
شامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ہفتے جنگ شروع ہونے کے بعد دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے ترکی کی سرحد کے قریب کوبانی کے علاقے میں 60 سے زیادہ گاؤں پر قبضہ کر لیا ہے۔ مبصرین نے سنیچر کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے کم از کم 11 کرد باشندوں کو پھانسی دے دی ہے جبکہ اس گاؤں سے بھاگنے والے تقریبا 800 افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ شام میں کرد ڈیموکریٹک یونین کے محمد صالح مسلم نے جہادیوں کے خلاف بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے۔