67 سال پہلے ایک مُسلم لیگ نے مُلک بنایا؟

Truth

Truth

جبکہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اِنسان کی شرافت اور قابلیت اِس کے لباس اور دولت سے نہیں بلکہ اِس کے کردار اور فعل وگفتار سے ہوتی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سچا اِنسان سچائی کی وجہ سے اِس مقام ورُتبے تک پہنچ جاتا ہے جِسے جھوٹا مکرو فریب سے نہیں پاسکتا ہے، اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سچائی کامیابی وکامرانی کا سبب ہے اور جھوٹ وفریب رسوائی کا موجب ہے، سچے انسان کا تعلق قلب اور ضمیر کی زندگی سے ہے اور جھوٹ کا اِن کی مرگِ ناگہاں سے ہے، سچ کا کا ذائقہ کڑوا مگر اِس کا اثر میٹھا ہوتا ہے، اور اِسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگلے پچھلے دانائے بحرو بر سچ سے متعلق بے شمار ایسے اقوال زریں چھوڑ گئے ہیں کہ جنہیں اِنسان اپنی زندگی کا حصہ بنالے اور سچ کی کڑواہٹ برداشت کر لے تو ہر زمانے کے ہر معاشرے کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس معاشرے اور زمانے میں کون ایسا ہو گا جو جھوٹ کی آمیزش کی میٹھاس لگی اپنی زبان پر سچ کی کڑواہٹ برداشت کرکے اپنی دنیاوی کامرانیوں کو بریک لگالے گا، اور اپنی گزبھر کی لمبی فتنہ برپا کر دینے والی چمڑے کی زبان کا ذائقہ سچ کی لیپ لگاکر خراب کر لے گا، مگریہ حقیقت ہے کہ سچ چاہئے جتنا بھی کڑوا ہو آخر کار اِنسان کو اِسے کبھی نہ کبھی اپنی زبان کی نوک سے اپنے حلق کے نیچے اُتارنا ہی پڑتا ہے، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب دل و دماغ میں سچائی کے دریچے کھلنے لگ جاتے ہیں تو اِنسان کردار کی اُس بلندی کو چھونے لگ جاتاہے جو سچائی پر چلنے والے عظیم اِنسانوں کے حصے میں آتی ہے، اِسی لئے تو دانش مندوں کا یہ کہنا ہے کہ ہر چیز کا زیور خُوبصورتی ہے لیکن دل و زبان کا زیورصرف سچائی ہے اور صرف سچائی ہے۔

جبکہ یہاں یہ امریقیناَ افسوسناک ہے کہ میں سچ سے متعلق اتنی اچھائیاں جانتے ہوئے بھی اپنی زندگی کو اِس جملے پر ڈھال چکا ہوں کہ ” کہتا رہوں گاجھوٹ کہ سّچ کی عادت نہیں مجھے” ایسا میں نے کیوں …؟اور کب سے کرنے لگاہوں …؟آج شاید یہ تومجھے خود بھی معلوم نہیں ہے، مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ اِس کا اثر مجھے اپنے معاشرے، اپنے گھر، اپنے محلے، اپنے دوستوں عزیزوں اور اپنے استادوں اور حکمرانوں سے ضرور پڑا ہے، جنہوں نے اکثر اپنے اپنے مفادات کے خاطر سچ کاگلاگھونٹااور جھوٹ کو سوسائٹی میں بے لگام کرنے کے لئے اِسے آزادی سے ہمکنار کئے رکھا اور اِن سب کے سب نے اِس عزم پر قائم رہنے کا عہد کیا کہ سچ کا گلا ہمیشہ دبایا جائے گا اور ہر سانس اور ہر لمحہ جھوٹ کو دین و دھرم کی طرح عام کیا جائے گا۔

Prophet Muhammad PBUH

Prophet Muhammad PBUH

جی ہاں..!آج مجھے اپنے پیارے آقا حضورپُر نور حضرت محمد مصطفیۖ کا یہ فرمان بھی یاد ہے کہ” آدمی کے جھوٹاہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سُنی سُنائی بات بغیرتحقیق کے آگے بیان کردے” میں خود کو اپنے آقا ۖاور حبیب ۖخداکا غلام بھی کہتا ہوں مگر اِس کے باوجود بھی میں نبی آخری الزماں ۖ کے اِس فرمان کوسمجھ کر بھی نہ سمجھ سکاہوںاور دنیاوی عیش وطرب میں ایسا غرق ہوں کہ میں ہر سُنی سُنائی بات کو بغیر تحقیق کے (بریکنگ نیوز کا خُوبصورت کور چڑھا کر) سب سے پہلے آگے بڑھانے اور اپنے جیسے دوسرے جھوٹوں کے کانوں میں اُنڈیلنے کے لئے بیتاب رہتا ہوں، اور بات بات پر قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کے لئے منہمک رہتا ہوں، میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور جو سچ سامنے والا کہہ رہاہے وہ سب کا سب جھوٹ ہے میں اپنے اِس مِشن میں یہاں تک چلاجاتاہوں کہ بعدمیں مجھے بھی اِس بات کا یقین ہونے لگتاہے کہ میں نے اپنی اِس حرکت سے سچ کا گلادبا دیاہے اور جھوٹ کا بول بالا کر دیا ہے، یوں آج ایسا کرنا میرا روزمرہ کا معمول اور میری دنیاوی ترقی کا سامان تو ضرور بن چکا ہے مگر میں اِس کے ساتھ ہی اپنا ٹھکانہ جہنم میں روز بناتا ہوں اور جہنم کے پلاٹوں میں اضافہ کرتا جاتا ہوں۔

جبکہ مجھے اپنے آقائے دو جہاں حضورپُر نور حضرت محمد مصطفیۖ کا یہ فرمان
بھی یاد ہے کہ” سب سے پاکیزہ کمائی اُن تاجروں کی ہے جو لین دین میں جھوٹ نہیں بولتے ”مگر پھر بھی میں روزانہ اپنی دُکان پر کئی کئی من پانی مَلا دودھ اصلی بتا کر لوگوں کو فخرو افتخار سے بیچ دیتا ہوں، اور میں روزانہ اپنی دُکان پر گڑ کے شیرہ کو اصل شہد بتا کر فروخت کر دیتا ہوں جبکہ یہ شہد نہیں ہوتا ہے، میں روزانہ چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملا کر منوں چائے کی پتی بھی بیچ ڈالتا ہوں، کالی مرچ میں پپیتے کی بیچ ملا کر اِسے ایسے فروخت کرتاہوں کہ کوئی یہ نہیں پہنچان سکتا ہے کہ اِس میں پیتے کی بیج ملے ہوئے ہیں، اورمیں مُردوں کے کم قیمت کفن بھی جھوٹ بول کر مہنگے داموں فروخت کر دیتا ہوں، میں شادی شدہ ہو کر بھی خود کو کنوارہ ظاہر کرتا ہوں اور اِسی جھوٹ کی وجہ سے میں کئی محبوباؤں کو بھی محبت کا جھانسہ دے کر بے وقوف بنا چکا ہوں محلے کی کئی لڑکیاں میرا دم بھرتی ہیں، میں اپنی بیوی بچوں کا بھی جھوٹ بول کرحق مارتاہوں، اور ہاں..! میں مریضوں کی زندگیوں سے بھی تو کھیلتا ہوں کیوں کہ میں اِنہیں بڑی مہارت کے ساتھ جعلی ادویات کو اصلی اور اِمپورٹڈ بتاکرفروخت کرتا ہوں اور اِنہیں کھانے پر مجبور کر کے چندہی دِنوں میں اِن مریضوں سے شہر خموشاں کو آباد کرا دیتا ہوں۔

غرض کہ میں اور کیا کیا بتاؤں کہ میں جھوٹ کتنے پیارے انداز سے کس مہارت سے بولتا ہوں کہ کوئی میرے جھوٹ کو پکڑ بھی نہیں پاتا ہے، اور ہاں میں بتاؤں کہ میرے معاشرے کے بہت سارے ایسے جھوٹ اور مکروفریب کی دلدل میں دھنسے لو گ بھی ہیں اور جو قومی اداروں میں اپنے جھوٹ اور مکرو فریب کی ایسی ڈیوٹیاں نبھارہے ہیں کہ وہ بھی میری طرح جھوٹ اور فریب میں ماسٹرمائنڈ ہیں کیوں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں کچھ اِس طرح نبھاتے ہیں کہ وہ بے گناہ کو مجرم بناکر زندگی بھر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں ا ور مجرم کو بے گناہ ظاہر کر کے اُسے عزت داروں کی صفحوں میں گھسیڑ دیتے ہیں اوریوں اِن کا زبردستی کا عزت داربنا مجرم مرتے دم تک عزت دار ہی بنارہتاہے حالانکہ وہ اللہ اور معاشرے کا اصل مجرم ہوتاہے …گو کہ آج جھوٹ اور فریب ہمارے خون میں ایسے گردش کرتاہے کہ جیسے ہماری روح بھی اِس کی محتاج ہوکررہ گئی ہے، آج لگتاہے کہ اگر ہمارے خون سے جھوٹ کو کھینچ کر نکالا گیا تو ہماری روح بھی ہمارے جسم وجان سے پروازکرجائے گی،اور ہم مٹی کے ڈھیڑمیں بدل کرختم ہو جائیں گے، مگر ہم نے جھوٹ کا دامن نہیں جھوڑنا ہے اور حق و سچ کو دبائے رکھنا ہے۔

اگرچہ آج (بالخصوص میرے مُلک پاکستان سمیت) دنیا کا کوئی بھی مُلک ایسا نہیں ہے جس کے ہرشعبہ ہائے زندگی میں جھوٹ نے پلاٹنگ کرکے اپنے پلازے نہ بنالئے ہوں اور پنجے نہ گاڑدیئے ہوں، فورایگزامپل دہشت گردی ہویا لاقانونیت، کرپشن ہو یا فراڈ، میرٹ ہویا نااہلی اقرباپروی ہی اقرباپروی اور جھوٹ ہی جھوٹ ہے،معیشت ہویاسیاست، طاقت ہویا صداقت، اقتدارہویا اپوزیشن، تعلیم ہویا مہارت، جمہوریت ہو یا آمریت، عبادت ہو یا اخلاقیات ،تحقیق ہو یا تشخیص ، صحافت ہو یا سخاوت ہر جگہہ اور ہر مقام اور ہرقدم پر جھوٹ سب سے پہلے اور آگے جھوٹ ملے گا اور سچ غائب رہے گا۔

اَب اِسی کو ہی لے لیجئے کہ آج آپ کو اپنے یہاں 67 سال بعدسچ اور جھوٹ نظرآجائے گا،جب ہم یکم جنوری 2014 میں قدم رکھیں گے توہم 67 برس پرانے وقت کا مشاہدہ کریں گے کہ 2014 کا کیلنڈر ہمیں 1947 میں لے جائے گاتب ہمیں اِس بات کا احساس ہو گا کہ 1947 میں جس پاکستان مسلم لیگ نے اِس سرزمینِ پاکستان کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اِس کے سربراہان سچے اور کھرے تھے اُنہوں نے حق و سچ کا علم تھام کر دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست پاکستان کا اضافہ کیا جبکہ آج ہم جب (13 20 کے چندروزگزارنے کے بعد ) 2014میں داخل ہوکرموجودہ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہان کا تقابلی جائزہ لینے بیٹھیں گے توہمیں معلو م ہوگاکہ آج کی پاکستان مسلم لیگ کے ذمہ داران نے اپنی سیاست کی بنیادجھوٹ اور مکروفریب پررکھی ہے، آج جن کا کوئی بھی عمل جھوٹ اور مکروفریب سے خالی نہیں ہے، کیوں کہ 1947 والی پاکستان مسلم لیگ نے پاکستان کو بنایا اور ہندوؤں اور انگریزوں کے قبضے سے آزادی حاصل کی اور آج کی پاکستان مسلم لیگ ہندوؤں سے تعلقات استوارکرکے دوستیاں بڑھانے میں پیش پیش
ہے۔

اور اِسی طرح موجودہ پاکستان مسلم لیگ والے نج کاری کی آڑ میں منافع بخش اور ذرا خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام غیرملکیوں کو فروخت کرکے دوبارہ ایسٹ انڈیا کی طرزپر غلامی کا طوق اپنے گلوں میںڈالنے کی منصوبہ بندیاں کررہی ہے، کیا جھوٹ اور مکروفریب پر قائم رہنے والی پاکستان مسلم لیگ کا یہ عمل پاکستانی قوم کے لئے قابلِ قبول ہوگا، آج کیا کوئی ایسامحب وطن پاکستانی ایسانہیں ہے جو قوم کو حق اور سچ سے آشنا کرے اور جھوٹ پرقائم ہونے والی اِس حکومت سے جلدازجلدنجات دلانے میں اپناسچااور کھرا کردار ادا کرے، اورمجھے بتائے کہ میں آئندہ اپنا کالم اِس عنوان سے لکھوں کہ” کہتارہوں گاسچ کیوں کہ جھوٹ چھوڑ چکا ہوں میں”… چلتے چلتے میں آپ سے یہ کہناچاہوں گا کہ قارئین حضرات …!اپناخیال رکھیں اور اپنی تمام ترتوانائیاں حق و سچ کے لئے صرف کریں اور اپنے تن من اور دھن سے اپنے مُلک پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنامثبت وتعمیری کردار ادا کریں تو تب تک کے لئے اللہ حافظ….!!

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com