1974میں نشترکالج ملتان کے طلباء پر ربوہ اسٹیشن پر قادیانیوں کے تشدد کی وجہ سے پورے ملک میں قادیانی مخالفت تحریک شروع ہوگئی اور1953کی تحریک کی جوچنگاری دبی ہوئی تھی وہ پھر بھڑک اٹھی ۔ حکومت نے اسے روکنے اور ٹالنے کی پوری کوشش کی لیکن تحریک بہت پرزور ہوچکی تھی ۔ حضرت مولنا محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا مفتی محمود ، حضرت مولاناسید ابوالاعلی مودودی ،حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ، نوابزادہ نصر اللہ خان ، حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر، اور سیدمظفر علی شمسی صف اول کے قائدین تھے ۔ مجلس عمل کے قائدین کی بے پناہ دینی وسیاسی بصیرت نے تحریک کو تشددسے بچائے رکھا اس اتحاد و یکجہتی کی وجہ سے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور ٧/ستمبر1974کو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا تاریخی قانون پاس کردیا۔اس تاریخی دن سے دو یا تین دن پہلے کی بات ہے۔
بادشاہی مسجد لاہور میں تحریک ختم نبوت کے تمام قائدین کا مشترکہ اجتماع ہوا۔ عوام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تھا ۔مولناسیدابوالاعلیٰ مودودی دھیمے دھیمے لہجے میں تقریرکررہے تھے۔بڑی شریفانہ اور کوثر وتسنیم کے لہجے میں دھلی ہوئی نستعلیق گفتگو جس میں قادیانیت کے تارو پود بکھیرے گئے ۔سید مودودی کا خطاب جاری تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمود سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوئے ۔ان کی آمد سے مجمع میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔نوجوانوں کے جذبات قابو سے باہر ہوگئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے شاہی مسجد میں نعرے بازی شروع ہوگئی۔ایسے میں کچھ شرپسند عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہنگامہ کردیا سارا مجمع کھڑاہوگیا اور شوروشرابہ حدوں سے بڑھنے لگا ۔
بڑے بڑے قائدین نے مائیک پرآکرہنگامہ ختم کرنے کی اپیلیں کیں مگر کامیابی نہ ہوئی ۔ ۔ مولانا مودودی اس ماحول میں تقریر نہ کرسکے اور اپنی لکھی ہوئی تقریر پریس کے حوالے کرکے بغلی دروازے سے باہر نکل گئے اور مفتی صاحب سٹیج پر آگئے لیکن نوجوانوں کی نعرہ بازی نے جلسہ درہم برہم کرڈالاتھا۔ خطرہ تھا کہ بھاگ دوڑ میں کہیں انسانی جانیں ضائع نہ ہونی شروع ہوجائیں ایسے وقت میںکئی خطیب حضرات نے اپنی جولانیاں دکھائیں لیکن مجمع کسی کے کنٹرول میں نہ آسکا۔
ایسے میں ایک نوجوان نے جلسے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور چند منٹ کے اندر اندر اپنی خطابت کی دھاک بٹھا لی اوراتنے بڑے مجمع پرایسے قابو پالیا کہ جیسے وہاں کوئی متنفس موجود ہی نہیں ۔ پورے مجمع پر خاموشی کی چادرتن گئی ۔ لوگ اس نوجوان خطیب کا نام جاننا چاہتے تھے یہ تھے علامہ احسان الٰہی ظہیر۔ بعد میں بڑے بڑے مقررین کے خطاب کی راہ ہموار کی ۔ یوں شرپسندوں کی یہ سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔ورنہ وہ آخری اجتماع تھا اگروہ ناکام ہوجاتاتو تحریک کی کامیابی مشکوک ہو جاتی۔ اگلے دن اخبارات میں جلسے کی ساری کارروائی شائع ہوئی اور مولانا مودودی کی پوری تقریربھی جو ناتمام رہ گئی تھی شائع ہوئی۔
علامہ احسان الٰہی قادیانیت کی مکروہ تاریخ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے بالکل نوجوانی کی عمر اور مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم سب سے پہلے رد قادیانیت کے موضوع پرمدلل کتاب لکھی تھی۔ناشرنے اتنی عظیم الشان کتاب صرف اس وجہ سے شائع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی کہ ایک متعلم مدینہ یونیورسٹی کے نام سے اس کا شائع ہونا جچتا نہیں ہے ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ الاسلام عبدالعزیز بن باز کے سامنے یہ معاملہ آیا تو انہوں نے فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھنے کی اجازت دیدی۔ علامہ ظہیر نے پوچھا اگر یہ فاضل اگلے امتحان میں فیل ہوگیا۔
Sheikh bin baaz
تو شیخ بن باز نے مختصر جواب دیا کہ تب میں یونیورسٹی ہی بند کردوں گا ۔ چنیوٹ میں مشترکہ مجلس ختم نبوت کاسالانہ اجتماع ہواکرتا تھا ۔ تیسرے دن کا اجتماع تو بہت اہم ہوتا، جس میں ملک بھرسے لوگ پہنچتے ۔رات کے سیشن میں تمام مکاتب فکر کے نامورعلماء کی تقاریر ہوتیں ۔ علامہ احسان الٰہی کی تقریر سب پرسبقت لیجاتی تھی ۔ خلیل جبران کا ایک مقولہ ہے کہ اس نے ساحل سمندر پر بڑی گہرائی میں اپنا نام کئی جگہ لکھا ۔اگلے دن اس نے آکر دیکھا تو پانی کی لہروں نے سب نام مٹادیے تھے صرف کسی نامعلوم شخص کی لاٹھی کے نشان باقی تھے ۔