تحریر: فوزیہ منصور عالیہ اور ماریہ دونوں بہنوں کی شادی کو دس سال ہوگئے ، دونوں کے ہی چار چار بچے تھے۔ ایک ہی گھر میں بیاہی گئی تھیں۔ گو کہ الگ الگ رہتے تھے، عالیہ جتنی شوخ و چنچل اور باتونی تھی ماریہ اتنی ہی خاموش طبع اور سنجیدہ تھی۔ اور شاید یہی سنجیدگی اس کی زندگی کے لئے عذاب بن گئی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ خود میں تبدیلی پیدا کرسکے۔ اپنی بہن کی طرح اپنے خاوند سے ہر موضوع پہ بات چیت کرے۔ بات بات پر قہقہے لگائے۔ وہ اپنی عادت کے خلاف چلنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی۔ مگر ہمیشہ اپنے میاں طاہر کے ہاتھوں ذلیل ہوکر تنہا ہی رونے کے سوا وہ کچھ نہ کرسکی۔
طاہر پہلے سال سے ہی اپنی زبان اور ہاتھوں کا صدقہ بات بات پر ماریہ کو گالی گلوچ اور مارپیٹ کرکے ادا کرتا تھا ۔ شاید یہ اس کی فطرت تھی۔ یا تعلیم کی کمی۔ خیال تھا کہ بچوں کے بعد شاید پدرانہ شفقت جوش مارے اور ان کی خاطر ہی وہ اپنی زبان اور ہاتھ کو یوں نہ آوارہ چھوڑے۔ مگر یہ سب خیال دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اور طاہر وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے بڑھ کر بے لگام ہوگیا۔ اب اس کے تششد د کا نشانہ صرف ماریہ ہی نہیں معصوم بچے بھی بنتے تھے ۔ پانی لانے میں دیر ہوگئی ، یا جوتے پکڑانے میں ۔ سالن میں نمک کم یا زیادہ کہہ کریا بچوں نے کوئی چیز ہلا دی ہو۔ غرض کہ اس کے گھر میں ہونے سے گھر والوں پہ عذاب آیا رہتا تھا۔ بچے کوئی ایسا کونہ تلاش کرتے رہتے جہاں ان پر باپ کی نظر نہ پڑے۔ یا پھر جان بوجھ کر سونے کی ایکٹنگ کرتے۔ تاکہ وقت گزر جائے۔ اور یہی حال ماریہ کا تھا ۔ کسی وقت وہ بچوں کو سینے سے لگا کر رو لیتی۔ اور کسی وقت وہ لمبے لمبے سجدوں میں رو رو کر اپنے ان ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتی جس کی سز ا طاہر کی صورت میں مل رہی تھی۔
د س سال سے ماریہ ہر روز دن گزرنے کی دعا رکرتی۔ اور رات کو رات نہ ختم ہونے کی۔ پینتیس سال کی عمر میں وہ پچپن کی لگنے لگی تھی۔ اس نے خاوند کا رویہ بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اور اس کھوج میں رہی کہ آخر اس بے رحمی کی وجہ کیا ہے، جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنے بھائی بھابھی کے گھر جاتا یا وہ ان کے گھر آتے اس کے بعد طاہر کے رویہ میں زیادہ تلخی نمایاں ہوتی۔ حالانکہ ان کے ساتھ بڑے خوشگوار موڈ میں رہتا تھا۔ دھیرے دھیرے ماریہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس کی بہن عالیہ اور طاہر کے بھائی کی ہنستی مسکراتی اور پھولوں سے سجی زندگی ماریہ کے جیون میں کانٹے بکھیر رہی ہے۔ طاہر عالیہ کے قہقوں میں ماریہ کی خاموشی کو پھانسی دینا چاہتا ہے ۔ اور بیوی کے منہ سے قہقہوں کی گونج سننا چاہتا ہے۔
Laughter
طاہر کے ان احساسات کو محسوس کرنے کے بعد ماریہ نے بچوں کی عدم موجودگی میں دروازے بند کرکے کئی بار باآواز بلند قہقہے لگا کر اپنی فطرت پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ مگر یہ بے جان اور ویران قہقہے اس کو ابنارمل تو ظاہر کرتے تھے۔ پر عالیہ کی طرح شوخ و چنچل نہیں۔ اسی احساس میں اس کے قہقہے چیخوں اور پھر آنسووں میں ڈھل کر آنکھوں سے بہہ جاتے تھے۔ عالیہ اپنے زخموں کو خود سہلانے کی عادی ہوچکی تھی۔ مگر جب طاہر بچوں کو بے درد ی سے مارتا پیٹتا اور گالی گلوچ کرتا تو اس کی ممتا تڑپتی اور ماتم کرتی ۔ بچوں کو بچانے بڑھتی تو خود بھی دوچار تھپڑ اور لاتیں کھا کر گر پڑتی ۔ پھر بچے اسے بچانے کے لئے اس سے لپٹ جاتے ۔ اپنی آگ ٹھنڈی کرکے اوربیہودہ گالیاں نکال کر طاہر خود تو باہر نکل جاتا اور ماریہ اپنا درد چھپا کر بچوں کو سینے سے لگا کر پیار کرتی اور دلاسا دیتی۔
کہتے ہیں وقت انسان کو بدل دیتا ہے مگر طاہر نے اس بات کو غلط ثابت کردیا۔ وہ ظالم سے ظالم تر ہوگیا۔ کردار کی دوہی منزلیں ہوتی ہیں۔ دل میں اتر جانا یا دل سے اتر جانا۔۔ اور طاہر ماریہ کے نہ صرف دل سے اتر گیا تھا بلکہ نظروںسے بھی گر گیا تھا ۔ ایک شام ماریہ کے دماغ میں امید کا سورج ڈوب گیا۔ وہ باتھ روم گئی وہاں باتھ روم صاف کرنے والا سویپ پڑا تھا۔ اس کے دل میں طاہر کی باتوں کی گندگی بھری ہوئی تھی۔ اس نے ڈھکن کھولا اور بغیر کچھ سوچے نم آنکھوں سے وہ سویپ پی گئی۔ بچوں کے شور مچانے پر طاہر کے دروازہ توڑنے اور ہوسپٹل جانے تک ماریہ کی حالت بیقینی سی ہوگئی۔ معدہ واش کیا گیا۔ ڈاکٹر نے جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ شاید بچوں کی دعائیں موت کے فرشتے سے ماں کی روح کو چھین لائیں۔ کچھ دن ماریہ ہوسپٹل رہ کر نا چاہتے ہوئے بھی گھر آگئی۔ چند ہفتے طاہر نے کسی سے مستعار لیا ہوا ناقابل یقین اچھا رویہ دکھایا ۔ مگر ماریہ کے ٹھیک ہوتے ہی پھراپنی پرانی ڈگر پہ چل پڑا۔
Praying
ایک دن ماریہ بچوں کو نماز پڑھا رہی تھی۔ سجدے میں ماریہ کے کانوں سے آواز ٹکرائی” اے اللہ ہمارے ابو کو اپنے پاس بلا لے۔” پہلے تو وہ چونکی پھر اس کا دل چاہا کہ آمین کہہ دے۔ مگر ہمیشہ کی طرح بچوں کے باپ کا سوچ کر صرف دو آنسو بہا کر اٹھ گئی۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں۔ کہ” خدا بچوں کی دعائیں جلدی سنتا ہے۔ ”بس چند دن طاہر بیمار ہوا اور تیز بخار نے زمیں کی گود میں ظلم کا ایک باب دفن کردیا۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تب بھی ماریہ سفید دوبٹہ سے آنسو پونجھ رہی تھی۔ اس نے مڑ کر بچوں کی طرف دیکھا بچے وہاں نہیں تھے وہ پریشان ہوگئی ۔” کہاں چلے گئے ”۔ جلدی سے ان کے کمرے میں گئی۔ توٹھٹک کر رہ گئی۔ بچے شکرانے کے نفل پڑھ رہے تھے۔