خیبر پختونخوا (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بدعنوانی سے پردہ اٹھانے والے یعنی ’وسل بلوئنگ‘ سے متعلق منظور ہونے والے پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھتی ہے جبکہ حزب اختلاف کے اراکین کا کہنا ہے کہ اس سے دشمنیاں بڑھیں گی صوبائی اسمبلی نے پیر کے روز ’وسسل بلوور اینڈ ویجیلینس کمیشن بل سال 2015 ‘ کو منظور کیا ہے۔
سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ اس قانون سے کرپشن یعنی مالی بند عنوانی پر قابو پایا جا سکے گا۔ انھوں نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے مطابق ہر شخص کرپشن میں ملوث افراد کی ثبوت کے ساتھ نشاندہی کر سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت ایک تین رکنی کمیشن قائم کیا جائے گا جس کی سربراہی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں گے ۔ یہ کمیشن کس بھی شکایت کی تحقیقات کے لیے کسی افسر کو ذمہ داری دے گا اور اگر کرپشن ثابت ہو جائے تو ملوث شخص سے تمام رقم برآمد کی جائے گی اور اس رقم سے 30 فیصد حصہ شکایت کنندہ کو دیا جائے گا۔
اس قانون کے مطابق اگر شکایت غلط ثابت ہوئی تو شکایت کنندہ کو جرمانہ یا سزا ہو سکتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی سیکرٹری حسین بابک کے مطابق اس قانون سے لوگ کام کم اور جاسوسی زیادہ کریں گے۔
سپیکر پختونخوا اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس قانون سے لوگ ڈریں گے اور کوئی کرپشن نہیں کرے گا ، اس قانون کا مقصد خیبر پختونخوا کو کرپشن سے پاک کرنا ہے اور یہ ان کی جماعت کے منشور کااہم حصہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے تین سالہ دور میں اب تک 125 قوانین اسمبلی سے پاس کیے گئے ہیں جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کے رکن اسمبلی نور سلیم نے کہا کہ یہ قانون دکھاوے کا ہے اس پر عمل درآمد ممکن نہیں اور اگر اس پر کوئی مخبری کرے گا تو اس سے دشمنیاں بڑھیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ شکایت کی صورت میں برآمد ہونے والی رقم بنیادی طور پر عوام کا پیسہ ہے اور حکومت کو کس نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ عوام کے پیسے میں سے تیس فیصد شکایت کنندہ کو دے ۔ انھوں نے کہا کہ اس سے کرپشن میں اضافہ ہو گا۔
بظاہر حزب اختلاف کی رائے میں وزن کم نظر آتا ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہاں نیب اور احتساب کمیشن کو ہزاروں درخواستیں دی جاتی ہیں اس سے تو کوئی جاسوسی کو فروغ حاصل نہیں ہوا اور اس کے علاوہ ان وجوہات کی بنا پر کسی کو کرپشن کے لیے کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی۔
پاکستان تحریک انصاف نے اب تک تین سالہ دور میں اب تک 125 قوانین اسمبلی سے پاس کیے گئے ہیں جن میں بعض انتہائی اہم قوانین شامل ہیں۔