تحریر : پون سنگھ اروڑا 16دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں150پاکستانیوں کی شہادت جن میں 134معصوم طلباء شامل تھے،ایک ایسا واقعہ تھاجس نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔اس واقعے نے ملکی قیادت کو اس فکر میں ڈال دیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کئے جانے والے اب تک کے اقدامات اور حکمتِ عملی میںکہاں کوتاہی ہوئی اور کون سی ایسی آڑ تھی جس نے دہشت گردوں کو بچائے رکھا کہ ان کے خاتمے کا مناسب طور پر انتطام نہ ہو سکا تھا۔ دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ کے لئے تلف کرنے کی خاطر جو اولین اور سب سے اہم شرط یعنی مکمل قومی اتفاق رائے درکار تھی اس کے ساتھ ساتھ اتحاد اوریکجہتی کی بھی اشد ضرورت تھی کیونکہ پاکستانی قوم گذشتہ تیرہ برس سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔اس جنگ میں قوم نے50ہزار کے قریب قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اس سے نمٹنے کے لئے جامع منصوبہ تیار کیا جائے جس کی مدد سے آئندہ کے لئے کسی بھی نقصان سے نہ صرف بچا جا سکے بلکہ ایسے عناصر کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا جائے جو دہشت گردی میں مددگار ثابت ہوتے ہوں یا اس کا باعث بنتے ہوں۔
دہشت گردی مذہبی انتہا پسندی کی ہی پیداوار ہے۔اس کی ایک شکل فرقہ واریت ہے گذشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں ان مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں تعلیم و تربیت کے قومی دھارے سے ہٹ کر جس طرح ایک مخصوص اور محدود نصاب کے تحت تعلیم دی جا رہی تھی لہذا لازم کیا گیا کہ تمام مدرسوں کی رجسٹریشن ہو اور اْن کی نگرانی کی جائے تاکہ ان میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکے اور دینی مدارس کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے جس کے لیے وفاقی سطح پر نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کی تشکیل کے بعد، حکومت پنجاب نے حکومتی عمل داری کو قائم کرنے اور عوام الناس کو اندرونی خطرات سے بچانے کے لئے جامع پالیسی تشکیل دی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتری اور ان کے استعداد کار میں مزید اضافے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔
حکومت پنجاب نیشنل ایکشن پلان کو پوری طرح لاگو کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کی وجہ سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں۔ 20 نکاتی پروگرام میں اْن تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کئی نئے ناموں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ پرانی تنظیمیں نئے لیبل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری نہ رکھ سکیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تنظیموں کے سربراہان کو ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر آکر پروپیگنڈہ کرنے سے روکنے کے لئے جریدوں اور میڈیا اداروں کو بھی ہدایات جاری کی گیئں کہ وہ ایسے خیالات اور تقریروں کو شائع نہ کریں جن سے انتشار پھیلے علاوہ ازیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاپربھی اس کے کنٹرول کے لئے اقدامات کئے گئے اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان کے کچھ مزید مقاصد بھی ہیں جیسے کہ انٹرنل سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کے لئے اعلیٰ سطحی سیاسی اتحاد، تمام سٹیک ہولڈر کے ساتھ باہمی بات چیت اور تعلقات ، علمائ، میڈیا سول و پولیس ایڈمنسٹریشن اور عدلیہ کے رویہ میں تبدیلی اور وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین انٹیلی جنس، آپریشنز اور پراسیکیوشن میں بہترین باہمی امداد جس سے کہ دیر پا اثرات مرتب ہو سکیں اور وطن عزیز کو مظبوط اور مستحکم بنایا جا سکے۔
National Action Plan
نیشنل ایکشن پلان کو لاگو کرنے کے بعد حکومت پنجاب کی کاوشوں سے مندرجہ ذیل امور میں خاصی ترقی ہوئی جس طرح 20نکاتی پروگرام میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لئے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئیں جن میں نفرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر پابندی اور لاؤڈ سپیکرز کے غلط استعمال پر قید اور جرمانے کی سزا بھی شامل ہے اس کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے والی غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی تنظیموں کے لئے اندرون اور بیرون ملک مختلف حلقوں کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کی روک تھام کے لئے اقدامات میں ہر طرح کی این جی اوز کا آڈٹ مانیٹرنگ ۔چنانچہ نیشنل ایکشن پلان میں جو سفارشات کی گئی ہیں اْن میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کی فراہمی روکنابھی شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت فوری اقدامات کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں کے تقریباََ ایک ارب روپے سے زائد کے فنڈز منجمد کر چکی ہے۔کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی تنظیم نو کے بعد ایک اہم ادارے کے طور پر کائونٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ ادارہ دہشت گردی کی تمام اقسام بشمول فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے کام کر رہا ہے۔حکومت پنجاب دہشت گردی کے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے۔ پنجاب کو پاکستان کی تاریخ کی پہلی کائونٹرٹیررازم فورسبنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
ایک ہزار پانچ سو جوانوں پر مشتمل اس فورس میں بھرتی کے لئے میرٹ اور اہلیت کے کڑے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔اس وقت پاکستان کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سرفہرست ہے وطن عزیز کو درپیش دہشت گردی کے خطرے سے موثر طریقے سے نبردآزما ہونے کے لئے ایک ایسی فورس کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل تھا جو انٹیلی جنس معلومات کے حصول، خصوصی آپریشنز اور انویسٹی گیشن کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع کر سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے انسداد دہشت گردی فورس کے منصوبے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور انتہائی قلیل مدت میں انسداد دہشت گردی کے پہلے بیچ کی پاسنگ آئوٹ کو ممکن بنایا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے اس نئے ادارے کو ہر طرح کے وسائل فراہم کئے اور قومی ضرورت کے اس منصوبے کو وزیراعظم محمد نوازشریف کی ہدایات کے مطابق ذاتی دلچسپی لے کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کائونٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں 1179 کا رپورلز بھرتی کرکے کائونٹرٹیررازم فورس قائم کی گئی، ان کارپورلز کو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی تربیت فراہم کی گئی۔
برادر ملک ترکی نے ان کارپورلز کی انٹیلی جنس، آپریشنز اور انویسٹی گیشن کے حوالے سے خصوصی تربیت کے لئے بھرپور تعاون کیا اور ترک نیشنل پولیس کے 45سینئر افسران بھجوائے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت سنگین جرائم سے نمٹنے کے لئے فوری مقدمات درج اور گرفتاریاںعمل میں لائی گئیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر حکومت پنجاب کی طرف سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اٹھائے گئے فوری اقدامات کے نتیجے میں 5ستمبر 2016ء تک موثر اقدامات کرتے ہوئے 97ہزار 608 مقدمات درج کئے گئے جبکہ نفرت انگیز تقاریر، وال چاکنگ، اسلحہ کی نمائش اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایک لاکھ 5ہزار 131 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کرایہ داری ایکٹ، وال چاکنگ (ترمیمی ایکٹ) 2015ئ، اسلحہ ایکٹ (ترمیمی ایکٹ)2015ء پنجاب سائونڈ سسٹم ایکٹ 2015، پبلک آرڈر ایکٹ 2015ء کی ترمیم شدہ بحالی قوانین نافذ عمل کئے جا چکے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیںجبکہ پنجاب سائونڈ سسٹم ریگولیشن آرڈیننس کے تحت 10691مقدمات درج کئے گئے جس کے نتیجے میں 11399ملزمان کو گرفتار کرکے 9768چالان عدالت میں پیش کئے گئے۔4007مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں اور 3448مجرموں کو جرمانے اور قید کی سزا دی گئی ہے۔نفرت انگیزمواد کی نشر و اشاعت اور ابلاغ کے ایکٹ میں ترمیم کے بعد صوبہ بھر میں کارروائی کے دوران 981مقدمات درج اور 1191ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔
Court
عدالتوں میں 790 چالان پیش کئے گئے۔511مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں جبکہ 157 افراد کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کی خلاف ورزی پر صوبہ بھر میں 204مقدمات درج کرکے 367افراد کو گرفتار کیا گیا۔144افراد کے خلاف کورٹ میں چالان پیش کئے گئے۔ 20مقدمات کے فیصلے کے بعد 17افراد کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی۔ کرایہ پر رہائش حاصل کرکے نقصان کا باعث بننے والے عناصر سے چھٹکارے کے لئے پنجاب انفارمیشن آف ٹمپریری ریذیڈنس آرڈیننس 2015ء کی خلاف ورزی پر صوبہ بھر میں 14804 مقدمات درج کرکے 21959 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 7510 مالکان، 10392 کرائے دار، 96پراپرٹی ڈیلر اور 3961 منیجر وغیرہ شامل ہیں۔11595 چالان عدالتوں میں پیش کئے گئے۔4041 مقدمات کے فیصلے کے بعد 3669 افراد کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی اور انسداد وال چاکنگ ترمیمی آرڈیننس 2015ء کے تحت 1941 مقدمات درج کرکے 1905افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 1797 ملزمان کے چالان عدالت میں پیش کر دیئے گئے جبکہ 673 مقدمات کے فیصلے بھی ہو چکے ہیں۔500ملزموں کو جرمانے اور قید کی سزا دی جا چکی ہے۔اسی طرح پنجاب آرمز آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر 60691 مقدمات درج کئے گئے جبکہ 60674 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔53953 چالان عدالت میں داخل کئے گئے۔4245 مقدمات کے فیصلے سنا دیئے گئے۔3676 افراد کوجرم ثابت ہونے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
جبکہ فرقہ ورانہ نفرت انگیز تحریری مواد چھاپنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 189کتابیں اور 1500سی ڈیز 570 میگزین اور 3900پمفلٹ ضبط کر لئے گئے ہیں جبکہ متحدہ علماء بورڈ کی سفارش پر نفرت انگیز مواد پر مبنی 210کتابیں اور CDs پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں اور دہشت گردی میں مالی امداد لینے یا دینے یا سہولت کار بننے پر بھی سختی سے نظر رکھی جا رہی ہے۔41پولیس افسروں کو اینٹی منی لانڈرنگ لاء کے بارے میں مخصوص تربیت دی گئی ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت93مقدمات درج کئے گئے اور 123 افراد کو حراست میں لیا گیا اور 25افراد کو سزا سنائی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نام بدل کر کام کرنے والی 8تنظیموں کی کڑی نگرانی کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی فورس اور جرائم میں کمی کے لئے اقدامات دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انسداد دہشت گردی فورس میں 4000 افسران تعینات کئے گئے جن میں 56فیصد انٹیلی جنس،20فیصد آپریشنز اور 24فیصد کا تعلق تحقیقاتی ونگ سے ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں 70% کمی واقع ہوئی ہے۔2014ء میں دہشت گردی کے 42واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ سال 2015-16میں 17واقعات ہوئے ہیں۔
پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے مشترکہ آپریشنز روزانہ کی بنیاد پر کئے جا رہے ہیں۔ ان آپریشنز کی وجہ سے جرائم میں واضح کمی ہوئی ہے۔ جنوری 2016ء تا اگست 2016ء میں قتل کے مقدمات میں 7% کمی، اغواء برائے تاوان کے مقدمات میں 66% کمی، ڈکیتی کے مقدمات میں 35% کمی، رابری کے مقدمات میں 19% کمی سال 2015ء کے مقابلے میں ہوئی ہے۔ کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنسزکو حوالے سے مورخہ 26-1-2015 سے اسلحہ لائسنسز کو نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ کرنے کا عمل شروع کیا گیا اور پرانے اسلحہ لائسنسز کو نئے سمارٹ کارڈ سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اب تک 625000اسلحہ لائسنسز کو کمپیوٹرائز کیا جا چکا ہے۔انٹرنیٹ کی مدد سے دہشت گردی میں استعمال ہونیوالے 70سے زائد ویب لنکس بلاک کئے جاچکے ہیں اور پی ٹی اے کے زیر اہتمام نگرانی کے ذریعے نفرت انگیر مواد کی سوشل میڈیاکے ذریعے نشرو اشاعت کی کڑی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اورالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پرروزانہ عوام کی آگاہی کیلئے اشتہاری مہم بھی جاری ہے اوردہشت گردی کے خلاف عوامی شعور و آگاہی کے لئے محکمہ تعلقات عامہ کے زیر اہتمام 300سے زائد خصوصی مضامین ،فیچر اورکلرایڈیشنز کی اشاعت کااہتمام کیاگیا۔
Afghan Refugees
گذشتہ ماہ تک ایک لاکھ 43ہزار افغان مہاجرین کی بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے تصدیق کی جاچکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مدارس ،مساجد اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی جیو ٹیکنگ کے لئے بھرپور اقدامات کئے گئے جن میں 13782مدارس 62678مساجد اور 2925اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی جیو ٹیکنگ مکمل کی جاچکی ہے ۔اتحاد تنظیمات المدارس (ITM) کی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مخصوص فارم پر باہمی رضامندی کے لئے اتفاق رائے ہوچکاہے اور ساتھ ہی ساتھ کل 8286این ۔جی اوز میں سے 4200کی جیو ٹیکنگ کی جاچکی ہے ۔3427این ۔جی اوز کو ڈی رجسٹرڈ کردیاگیاہے ۔125این ۔جی اوز کاسپیشل آڈٹ کروایا گیاہے ۔40این ۔جی اوز کی نظرثانی آڈٹ رپورٹ تیارکی گئی ہے جبکہ 4این۔جی اوز کے خلاف محکمہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے کارروائی کی ہے ۔مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پولیس ریفارمز کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں ہومی سائیڈ تفتیشی یونٹ کاقیام ،478سب انسپکٹرز کی بطورتفتیشی آفیسر بھرتی و ٹریننگ اورتقرری ،صوبائی سپیشل برانچ ،پولیس سکول آف انفارمیشن اور ایلیٹ پولیس کی بہتری ،ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول کی استعداد میں اضافہ سپیشل پروٹیکشن یونٹ کاقیام ،ڈولفن فورس کاقیام ،کرائم میپنگ میں جدید ٹیکنالوجی کااستعمال ،سیف سٹی اتھارٹی کاقیام شامل ہے۔
پنجاب سکیورٹی (Vulnerable Establishments)آرڈیننس 2015ء کی خلاف ورزی پر 4148مقدمات درج کرکے 3818افراد کو گرفتار کرلیا گیا ۔عدالتوںمیں 2960چالان پیش کئے گئے ۔442کے فیصلے سنادیئے گئے 316مجرموں کو جرمانے اور قید کی سزا سنائی جاچکی ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کو موثر بنانے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب باقاعدگی سے اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں لااینڈ آرڈر کی صورتحال کاجائز ہ لیتے ہیں۔اب تک اپیکس کمیٹی کی 8میٹنگز ہوچکی ہیں۔امن وامان قائم رکھنے کیلئے موثر اقدامات کی وجہ سے محرم الحرام اور دیگرتہوار بخیروعافیت اختتام پذیر ہوئے ۔عدالتی کارروائیوں میں17 دہشت گردوں کو سزائے موت دی جاچکی ہے ۔جبکہ 7مقدمات کی رحم کی اپیلیوں پر صدرپاکستان کی جانب سے فیصلہ ہونا باقی ہے ۔ مقدمات ٹرائل کے لئے آرمی کورٹ کو بھیجے گئے جن میں8ملزمان کو موت کی سزا سنائی گئی ۔7 ملزمان کی رحم کی اپیل صدرپاکستان کے پاس پینڈنگ ہے جبکہ ایک ملزم کی رحم کی اپیل صدرپاکستان نے مسترد کردی جس کامقدمہ ہائی کورٹ لاہور میں زیر سماعت ہے ۔ابتدائی مرحلے میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے خطرناک درجے کے 829افراد کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ تیسرے درجے کے 253شر پسند عناصر کو بھی حراست میں لیاگیا۔پورے پنجاب سے چندہ جمع کرنیوالے ڈبو ں کو ختم کیاگیا اور یہ کام ابھی بھی جاری ہے ۔تمام کالعدم تنظیموں اوران کے ساتھ کام کرنیوالی تنظیموں پرلوگوں سے چندہ اکٹھاکرنے اور عیدالاضحی پرقربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر مکمل پابند ی عائد کی گئی ہے جبکہ115فورتھ شیڈول اشخاص کامدارس میں داخلہ بند کیاگیا۔
پراسیکیوٹرز کے لئے نیا کوڈ آف کنڈکٹ ،پراسیکیویشن کیس مینجمنٹ سسٹم ،پراسیکیو ٹرز ٹریننگ ،دہشت گردی کے مقدمات میں پیش ہونے والے پراسیکیوٹرز کے لئے تنخواہ میں اضافہ ،سزا کے تناسب میں اضافہ اور فارنزک ریفارمز کے لئے سال 2011میں پنجا ب فارنزک سائنس لیبارٹری کاقیام،14ڈسپلنز 2,35,000فارنزک رپورٹ کی تیاری۔150اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان جو پی ۔ایچ ۔ڈی اور ایم ۔فل کی ڈگر ی رکھتے ہیں۔ان کے لئے 8ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں سیٹلائٹ اسٹیشنز کاقیام عمل میں لایا گیا ۔جیل خانہ جات میں جیمرز اور بائیو میٹرک کی تنصیب جو کہ پولیس کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہے ،ہائی سکیورٹی پر یژن ساہیوال کاقیام جس میں 1008دہشت گردوں کو رکھنے کی گنجائش ہے اورجس میں ویڈیو ٹرائل کی سہولت بھی موجود ہے ۔جبکہ پولیس اور انٹیلی جنس کی مشترکہ کارروائیوں میںدہشت گردوں کے مواصلاتی جرائم کے واقعات میں کمی آئی ہے ۔714بائیو میٹرک مشینیں پولیس جبکہ 226مشینیں CTD،CIAاور SBکے حوالے کی جاچکی ہیں جو کہ جانچ پڑتال میں مدد گار ثابت ہوں گے ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جاری کاروائیوں کی مد میں ہونے والی بہتری اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہتی ہے تو وہ دِن دور نہیں جب قائد اور اقبال کے پاکستان سے فضائیںامن کا پیغام لے جاکر تمام دنیا کو اپنی طرف مدعوکریںگی ۔ امن کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت کوشاں ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی کوششیں قابل ذِکر ہیں۔