تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل آپ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے چھ برس بعد طائف میں ہوئی اس لحاظ سے آپ حضورنبی کریمۖسے قریباََچھ برس چھوٹے تھے۔آپ کانام “عثمان آپ کی کنیت ”ابوعبداللہ ”اور ”ابوعمرو ”اور لقب ”ذوالنورین ”ہے۔آپ کے والد کانام ”عفان ابن ابی العاص ”اور والدہ ماجدہ کانام”ارویٰ بنت کریز”ہے۔ ذوالنورین کی وجہ تسمیہ:آپ کے لقب ذوالنورین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضورنبی کریمۖکی دوصاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں آپ کانکاح پہلے حضورنبی کریمۖکی صاحبزادی حضرت رقیہ سے ہواانکے وصال کے بعدحضورنبی اکرم ۖنے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثوم کانکاح آپ سے کیا۔ حضرت اُم کلثوم کے وصال کے بعدحضورنبی کریم ۖنے فرمایااگرمیری کوئی اوربیٹی ہوتی جسکامیں نکاح کرتاتومیں اسکانکاح عثمان سے ہی کرتا۔سنن بیہقی میں منقول ہے کہ حضرت سیدناعثمان غنی کویہ اعزازحاصل ہے کہ انکے علاوہ کبھی کسی نبی کی دوبیٹیاں ایک شخص کے نکاح میں نہیں آئیں اوریہی وجہ ہے کہ آپ کوذوالنورین یعنی دونوروں والاکہاگیاہے۔زمانہ جاہلیت میںآپکی کنیت ابوعمروتھی ۔جب آپ نے اسلام قبول کیااورحضورۖکی صاحبزادی حضرت رقیہ سے نکاح ہواتوانکے بطن پاک سے حضرت عبداللہ پیداہوئے جن کے نام سے آپۖکی کنیت ابوعبداللہ مشہورہوئی۔آپ کاسلسلہ نسب عبدمناف پرحضورنبی کریم ۖسے جاملتاہے آپ کے والدکی طرف سے سلسلہ نسب حسب ذیل ہے ۔”عثمانبن عفان بن ابوالعاص بن اُمیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصیٰ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب”۔آپ کاوالدہ کی طرف سے سلسلہ نسب حسب ذیل ہے۔ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف”۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکُ اِنَّمَایُبَایِعُونَ اللّٰہ یَدُا للّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِم٭ْوہ جوتمہاری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ہی بیت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاہاتھ انکے ہاتھوں پرہے۔اس آیت کریمہ کاشانِ نزول یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ ٩ہجری میں حضورنبی کریمۖپندرہ سوصحابہ کرام علیہم الرضوان کے ہمراہ مدینہ منورہ سے عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔آقاۖاپنی اونٹنی قصواء پرسوارتھے جوکہ حدیبیہ کے مقام پرجاکربیٹھ گئی ۔حدیبیہ ایک گائوں ہے جومکہ مکرمہ سے بارہ میل کے فاصلے پرجانب مغرب واقع ہے۔آپۖنے تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان کوقیام کرنے کاحکم دے دیا۔آقاۖنے جب قیام کیاتودوران قیام ہی آپۖکویہ اطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نے انکی آمدکوغلط اندازمیں لیاہے اوروہ ان سے جنگ کرناچاہتے ہیں ۔حضورۖنے حضرت سیدناعثمان غنی کوقریش مکہ کی طرف مکہ معظمہ میں پیغام دے کربھیجاکہ وہ معززین مکہ کوجاکربتائیں کہ ہم لڑنے یاجنگ کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہم توصرف اللہ پاک کے گھرکی زیارت اورطوافِ کعبہ کے لئے آئے ہیں۔حضرت سیدناعثمان غنی محبوب خداۖکایہ پیغام لیکربحیثیت قاصد قریش مکہ کی طرف چلے گئے ۔جب آپ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے توآپکی ملاقات ابان بن سعیدبن العاص سے ہوئی ۔آپ انکے ساتھ انکے گھرروانہ ہوگئے۔
آپ نے ابان بن سعیدبن العاص کے ساتھ حضورۖکاپیغام ابوسفیان اوردیگرمعززین مکہ کوجاکرپیغام سنایا۔اس پیغام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تومسلمانوں اورانکے آقا(ۖ)کومکہ مکرمہ نہیں آنے دیں گے ۔آپ سے انہوں نے کہاہاں اگرتم طواف کعبہ کرناچاہتے ہوتوتمہیں اجازت ہے قربان جائوں سیدناعثمان غنی آپ کے عشق رسولۖ پر!آپ نے فرمایاکہ میں اسوقت تک کعبہ شریف کاطواف نہیں کروں گاجب تک میرے آقاۖاوردیگرصحابہ کرام طواف کعبہ شریف نہ کرلیں ۔ اس انکارکے بعدمعززین مکہ نے حضرت سیدناعثمان غنی کواپنے پاس روک لیااس تاخیرکی وجہ سے لشکراسلام میںیہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت سیدناعثمان غنی کوشہیدکردیاگیاہے جب آقاۖکوشہادت سیدناعثمان غنی کاپتاچلا اس پرمسلمانوں کے دلوں میں قتل عثمان کابدلہ لینے کے لئے کفارسے مقابلہ کرنے کا جوش پیدا ہوگیا آقاۖنے تمام صحابہ کرام کواکٹھاکیااورایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔
Muhammad SAW
آقا نے تمام صحابہ کرام سے اس بات پربیعت لی کہ جب تک ہم حضرت سیدناعثمان غنی کی شہادت کابدلہ نہیں لے لیتے تب تک ہم میدان جنگ سے راہ ِ فراراختیارنہ کریں گے خواہ ہماری جانیں ہی کیوں نہ چلی جائیں اس بیعت میں نبی کریمۖنے اپنابایاںہاتھ حضرت سیدنا عثمان غنی کی طرف سے بیعت کے لئے پیش کیا۔اس بیعت کوبیعت رضوان کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔”اے پیغمبرۖ!جولوگ تم سے بیعت کررہے تھے وہ حقیقت میں اللہ پاک سے بیعت کررہے تھے اورانکاہاتھ اللہ کے ہاتھ میں تھاپس جس نے اس عہدکوتوڑااس نے عہدشکنی کی اوراس پراسکاوبال عنقریب پڑے گااورجس نے اس عہدکوپوراکیااس نے اللہ پاک کے ساتھ کیاگیاوعدہ پوراکیاپس اللہ پاک عنقریب اسکواجرعظیم عطافرمائے گا”۔خوش قسمت ہیں وہ صحابہ کرام کہ جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پرآپۖکے ہاتھ پربیعت کی اللہ رب العزت نے فرمادیا۔لَقَدْرَضِیَ اللّٰہ ُ عَنِ الْمُوْمِنِیْنَ اِذْ یُیَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَجَرَ ةِ۔(پارہ ٢٦)بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوگیا۔جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرتے تھے ۔جب معززین مکہ کواس بات کی خبرہوئی تووہ بڑے پریشان ہوگئے انہوں نے حضرت سیدناعثمان غنی کوواپس بھیج دیا۔اورساتھ ہی ایک وفدصلح کے لئے حضورنبی کریمۖکی خدمت اقدس میں بھیج دیاجس نے حضورنبی کریمۖکے ساتھ معاہدہ حدیبیہ کی شرائط طے کیں جس پرحضرت سیدناعثمان غنی نے بھی دیگرصحابہ کرام کی طرح دستخط طے کیے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمۖنے ارشادفرمایا”ہرنبی کاایک رفیق ہوتاہے میرارفیق جنت میں عثمان ہے۔حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖنے ارشادفرمایا”عثمان غنی کی سفارش سے سترہزارجہنمی جن پرآگ واجب ہوچکی ہے بلا حساب جنت میں داخل ہونگے ۔سیدنامرہ بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہۖنے (اپنے بعدکے)فتنوں کاذکرکیااتنے میں ایک آدمی کپڑااوڑھے ہوئے وہاں سے گزراتوآپۖنے فرمایایہ شخص اس دن ہدایت پرہوگامیں نے اٹھ کردیکھاتووہ عثمان بن عفانتھے۔(سنن ترمذی) حیاء عثمان غنی:حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک دن آقاۖگھرمیں لیٹے ہوئے تھے ۔اس حال میں آپۖ کی پنڈلی مبارک ننگی تھی دروازے پردستک ہوئی توپوچھاکون جواب آیاصدیق !آپ نے اندرآنے کی اجازت مانگی توآپۖنے اجازت دے دی اورحضرت ابوبکرصدیق نے آپۖسے کچھ گفتگوکی۔پھردروازے پرحضرت عمرفاروق آئے ۔آپ نے اندرآنے کی اجازت مانگی آقاۖ نے اندرآنے کی اجازت دے دی ۔حضرت عمرفاروق نے آپ ۖکے ساتھ کچھ باتیں کی ۔اسکے بعدحضرت عثمان غنی ذوالنورین آئے اور اجازت مانگی تواس پرحضورۖاٹھ کربیٹھ گئے ۔”وَسَّوَیْتَ ثِیَابَکَ”اوراپنے کپڑوں کودرست فرمالیا۔جب سب چلے گئے توحضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کی یارسول اللہۖکیاوجہ ہے جب میرے اباجان آئے آپ اسی حالت میں رہے۔جب حضرت عمرفاروق آئے توبھی آپ اسی حالت میں رہے ۔لیکن جب عثمان غنی آئے توآپ جلدی سے اٹھ کربیٹھ گئے اورپنڈلی کاکپڑابھی درست فرمالیا۔ آقاۖنے فرمایااے عائشہ کیامیں اس شخص سے حیانہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاکرتے ہیں۔(مشکوٰة شریف)۔
سخاوت عثمان غنی:حضرت عثمان غنی نہایت دولت مندتھے ان کی دولت سے اسلام اورمسلمانوں کوبڑافائدہ پہنچا جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ گئے تووہاں پانی کاصرف ایک کنواں تھاجس کانام بئررومہ تھاجوایک یہودی کی ملکیت تھااوروہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتاتھاجس سے غریب مسلمانوں کوپانی کی سخت تکلیف تھی ۔حضرت عثمان غنی نے بڑی کوشش کرکے نصف کنواں بارہ ہزاردرہم میں اس شرط پرخریدلیاکہ ایک دن حضرت عثمان کی باری ہوگی اوردوسرے دن کاپانی یہودی کے لئے مخصوص ہوگا۔حضرت عثمان نے اپنی باری کے دن کاپانی مسلمانوں کے لئے مفت کردیا۔لوگ دودن کے لئے پانی بھرلیتے تھے اس طرح یہودی کاکاروبارٹھپ ہوگیااس نے باقی حصہ بھی آٹھ ہزارمیں فروخت کردیااوریہ کنواں حضرت عثمان غنی نے خریدکرمسلمانوں کے لئے وقف کردیا مسجدنبوی میں توسیع کی ضرورت ہوئی توآپ نے25ہزاردرہم کے لگ بھگ رقم سے جگہ خریدکردی خانہ کعبہ کی توسیع کے لئے قریباًدس ہزارمیں زمین خریدی۔
Hazrat Abu Bakar Siddique
حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میںسخت قحط پڑگیالوگ جمع ہوکرحضرت ابوبکرصدیق کے پاس آئے ۔آپ کی بارگاہ میں غلہ کم ہونے کی شکایت کی ۔اس پرآپ نے فرمایاگھبرائونہیں بفضلہ تعالیٰ مجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ شام سے پہلے یہ مشکل آسان فرما دے گاجب شام کاوقت ہواتوپتہ چلاکہ حضرت عثمان غنی کے غلے سے بھرے ہوئے ایک ہزاراونٹ شام سے واپس مدینہ پہنچ چکے ہیں یہ اطلاع ملتے ہی مدینہ منورہ کے تمام تاجرآپ کے گھرجمع ہوگئے آپ سے غلہ خریدنے کی بات کی حضرت عثمان غنی نے فرمایاکیانفع دوگے؟وہ کہنے لگے دوگنانفع دیں گے ۔آپ نے فرمایایہ تھوڑاہے وہ کہنے لگے چارگنانفع لے لو۔آپ نے فرمایایہ تھوڑاہے ۔مدینہ کے تاجروں نے کہاپانچ گنانفع لے لو۔آپ نے فرمایایہ تھوڑاہے اورزیادہ کرو۔وہ کہنے لگے کہ مدینہ کے تاجرتوہم ہیں اورہم سے زیادہ آپ کونفع کون دے گا۔آپ نے فرمایاجوکوئی دس گنانفع دے گایہ غلہ اسے دونگا۔تاجروں نے اتنانفع دینے سے انکارکردیا۔آپ نے فرمایامجھے بارگاہ الٰہی سے ایک درہم کے بدلے دس درہم نفع ملتاہے یہ کہہ کرآپ نے ساراغلہ مدینہ منورہ کے غرباء میں تقسیم کردیا۔قربان جائوں حضرت سیدناعثمان غنی تیری سخاوت پراللہ پاک آپ کی سخاوت کی وجہ سے اہل مومن کے دل میں سخاوت ڈال دے۔
غزوہ تبوک کے موقع پرایک وقت ایسابھی آیاجب مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑگیااورنوبت درختوں کے پتے کھانے تک آگئی جب غزوہ تبوک کی تیاری کی گئی تواس وقت نہایت بے سروسامانی کاعالم تھاحضورۖنے صحابہ کرام کوجہادکی ترغیب دی حضرت سیدناعثمان غنینے سواونٹ سامان سے لدئے ہوئے پیش کیے حضورۖنے پھرجہادکی ترغیب دی توحضرت سیدناعثمان غنی نے سواونٹ مزیدسامان سے لدئے ہوئے مزیدآقاۖ کی بارگاہ میں پیش کیے ۔آقاۖنے جہادکی ترغیب جاری رکھی یہاں تک کہ حضرت سیدناعثمان غنی نے مزیدایک سواونٹ مع سامان لے کر آقاۖکی خدمت میں حاضرہوئے حضورۖنے منبرسے نیچے اترکرفرمایا:آج کے بعدکوئی عمل عثمان کونقصان نہیں پہنچائے گا۔حضرت ابوسعیدخدری فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمۖکی خدمت اقدس میں حاضرتھاتوآپۖنے حضرت سیدناعثمان غنی کے لئے دعاکی “اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں لہذاتوبھی اس سے راضی ہوجا”۔ بغض عثمان غنی:حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضورۖایک شخص کی نمازہ جنازہ پڑھانے تشریف لے گئے ۔پس آپۖنے اسکاجنازہ نہ پڑھایا۔ آپۖسے عرض کیاگیایارسول اللہۖآپ اس سے پہلے کبھی کسی کاجنازہ پڑھائے بغیرواپس نہیں آئے توآقاۖنے فرمایا”بے شک وہ شخص عثمان سے بغض رکھتاتھا،پس وہ اللہ پاک سے بغض رکھتاتھا “۔(ترمذی)۔
شہادت۔ حضرت عثمان کی شہادت عبداللہ بن سبّااورمروان کی شرارتوںسے واقع ہوئی چنانچہ مصریوں کے اصرارپرصحابہ کرام کی ایک جماعت حضرت عثمان غنی کے پاس آئی اورگورنرمصرکی معزولی کامطالبہ کیاآپ نے فرمایاجس کوتم پسندکرتے ہومیں اسکوگورنربنادیتاہوں انہوں نے حضرت محمدبن ابوبکر کی طرف اشارہ کیاآپ نے محمدبن ابکر کوگورنربناکرمصرروانہ کردیااور انکے ساتھ مہاجرین وانصارکی بھی ایک کثیرتعدادروانہ ہوئی تاکہ وہاں کے حالات کاجائزہ لیں۔ادھرمروان نے مصرکے پہلے گورنرکوایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ یہ خط امیرالمومنین کی طرف سے ہے ۔ان کاکہناہے کہ جونہی محمدبن ابوبکراورانکے ساتھی تمہارے ہاں پہنچیں توان سب کوقتل کردینااورخفیہ طورپرحضرت عثمان کی مہرلگاکرآپ ہی کے غلام کواونٹ پرسوارکرکے مصرروانہ کردیاراستہ میں یہ لوگ اوریہ غلام باہم مل گئے۔انہوں نے اس غلام سے پوچھاکہ تم کہاں جارہے ہواس نے کہاامیرالمومنین کاایک پیغام لیکرمصرجاررہاہوں ۔انہوں نے کہاکہ مصرکاگورنرتوہمارے ساتھ ہے جوپیغام ہے انہیں کہواس نے کہایہ نہیں جو مصرمیں ہیں انکی بات ہے اس پرلوگوں کوشک پڑگیاوہ کہنے لگے کہ تیرے پاس کوئی خط تونہیں وہ غلام کہنے لگامیرے پاس کوئی خط نہیں۔
ALLAH
چنانچہ انہوں نے اس غلام کی تلاشی لی توخط نکل آیاجب اس نے کھول کرپڑھاتواس میں تحریرتھاکہ یہ خط حضرت عثمان کیطرف سے ہے لوگوں نے محمدبن ابوبکرکوزبردستی حاکم مقررکردیاہے لہذاجس وقت یہ مصرمیں پہنچیں توانہیں فوراََ قتل کردینا۔یہ خط پڑھ کرسب غصہ میں بھڑک اٹھے اورواپس مدینہ منورہ آگئے اورتمام صحابہ کوجمع کیااوروہ خط سنایاصحابہ کرام وہ خط لیکرحضرت عثمان کے پاس گئے اورکہاکیایہ خط تم نے لکھوایاہے حضرت عثمان نے لاعلمی اظہارکیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیایاامیرالمومنین آپ حکم دیں ہم ان سے لڑائی کرکے انہیں بھگادیں ۔آپ نے فرمایاتمہیں قسم ہے پیداکرنیوالے کی کسی مسلمان کاایک قطرہ بھی خون کانہ بہانامیں اسکاقیامت کے دن کیاجواب دوں گا۔پھرصحابہ کرام نے کہاکہ آپ کسی اورجگہ چلے جائیں آپ نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ سرکارکے قدموں میں میری جان نکل جائے توکوئی پرواہ نہیں اسکے بعدآپ مسجدمیں تشریف لے گئے اورمنبرپرکھڑے ہوکرخطبہ دیااورخط کے بارے میں اپنی لاعلمی کااظہارفرماہی رہے تھے کہ ظالموں نے آپ پرپتھربرسانے شروع کردیے یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہوکرزخمی حالت میں منبرسے نیچے گرپڑے ۔لوگ آپکواسی حالت میں اٹھاکرلے آئے صحابہ کرام نے آپکی حالت دیکھ کرایک بارپھرکہااے امیرالمومنین آپ ہمیں اجازت دیں ہم انکاخاتمہ کردیں آپ نے انہیں منع فرمادیا۔
اب ایک بارپھرسینکڑوںکی تعدادمیں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی کے گھرکامحاصرہ کرلیااورکہنے لگے کہ اب بغیرقتل کے نہ چھوڑیں گے اورہرچیزکامکان کے اندرآناجاناحتیٰ کہ پانی تک بندکردیاگھرمیں کھانے پینے کی ہرچیزختم ہوگئی جب پانی بندہوئے سات دن گزرگئے توحضرت سیدناعثمان نے کھڑکی سے سرمبارک باہرنکال کرآوازدی کہ ہے کوئی آج عثمان کوپانی کاایک پیالہ پلادے میں وعدہ کرتاہوں کہ قیامت کے دن جونبی کریمۖحوض کوثرپرپیالہ مجھے عطافرمائیں گے میں اُسے پیالہ دوںگا۔جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوپتاچلاتوآپ نے تین مشکیں پانی سے بھریں اورجب آپکے مکان کے قریب پہنچے توان باغیوں نے مشکوں میں برچھے مارکرانہیں چھلنی کردیاجس سے ساراپانی بہہ گیااسکے بعدحضرت ام المومنین ام حبیبہ بھی پانی کی ایک مشک لے کرخچرپرسوارہوکرآئیں۔مگران ظالموں نے انکی بھی پرواہ نہ کی اورخچرکے منہ پرچھڑیاں ماریںجس سے وہ ایسابھاگاکہ حضرت ام حبیبہ بمشکل گرنے سے بچیں یہ دیکھ کرلوگ گھبرائے اورکہاخداتمہارا خانہ خراب کرے ازواج نبی کاتوکچھ خیال کرواس پراہل مدینہ کوبہت غصہ آیااورتلواریں لے کرحضرت عثمان سے عرض کیاکہ اب توازواج رسول کی بھی بے حرمتی ہونے لگی ہے ہمیں لڑنے کی اجازت دوآپ نے پھرمنع فرمادیاحتیٰ کہ پانی بندہوئے چالیس دن گذرگئے اسکے بعدظالموں نے آپکے مکان کوآگ لگادی گھروالے گھبرااٹھے بچے رونے لگے حضرت عثمان غنی اسوقت نمازپڑھ رہے تھے گھرجل رہاتھا۔
مگرحضرت عثمان کی نمازمیں ذرابھربھی فرق نہ آیا۔اسکے بعدآپ قرآن مجیدکی تلاوت شروع کردی ۔چندباغی دیوارپھاندکرمکان کے اندرداخل ہوگئے جن میں محمدبن ابی بکرنے آپ کی داڑھی مبارک کوپکڑکرہلاناشرو ع کردیا۔آپ نے فرمایااگرتیراباپ آج زندہ ہوتاتوتوکبھی ایسانہ کرتاچنانچہ وہ تواس بات سے شرم کھاکربھاگ نکلا۔ایک ظالم سوادبن جمران نے آپ کاگلاگھونٹااورایک نے آپ کے چہرے پرطمانچے مارنے شروع کردیے مگرواہ عثمان تیرے حوصلے پرصدقے تیرے صبرپرقربان اُف تک نہ کی پھراس نے تلوارکاوارکیاجس سے آپکی زوجہ حضرت نائلہ کی انگلیاں روکتے ہوئے کٹ گئیں اورآپ کااپناہاتھ بھی کٹ کرزمین پرگرگیااس پرآپ نے فرمایایہ وہ ہاتھ تھاجووحی لکھاکرتاتھاآج یہ راہ مولیٰ میں کٹاہے یہ وہ ہاتھ تھاجس نے نبی کریمۖکے ہاتھ پربیعت کی تھی اورجس دن سے اس ہاتھ کونبی کریمۖنے اپناہاتھ کہایہ کسی گندی جگہ پرنہ گیا۔آپ نے فرمایا!اوبے خبروذرااس ہاتھ کواچھی طرح دفن کرنااسکے بعدایک اورظالم نے آپ پربرچھے کے وارکرناشروع کردیے اورخون کاپہلاقطرہ قرآن مجیدکی اس آیت پرگرا”فَسَیَکْفِیْکَھُمُُ اللّٰہ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْم “تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہ سننے والااورجاننے والاہے۔اس طرح آپ تلاوت قرآن مجیداورکلمہ شریف کاوردکرتے ہوئے اٹھارہ١٨ذوالحجہ ٣٥ھ بروزجمعة المبارک کوجام شہادت نوش فرماگئے ۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّااِلِیْہِ رٰجِعُوْن۔
Hazrat Usman Ghani Grave
تجہیزوتکفین:روایات میں موجودہے کہ حضرت عثمان غنی کاجسم اطہرتین دن تک آپ کے گھربے گوروکفن پڑارہاآپ کے گھرکے ارگردسازشیوں نے شورش برپاکررکھی تھی بالآخرشہادت کے چوتھے روزحضرت جبیربن معطم اورحضرت حکیم بن حزام حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے درخواست کی وہ ان سازشیوں کوسمجھائیں کہ اب تووہ حضرت سیدناعثمان غنی کی تدفین کرنے دیں حضرت علی المرتضیٰ سازشیوں کے پاس پہنچے توآپ نے حضرت سیدناامام حسن ،حضرت زبیربن العوام اوردیگرکوحضرت سیدناعثمان غنی کاجنازہ لاتے دیکھاجنازہ کے ہمراہ حضرت سیدناعثمان غنی کے کچھ رشتہ داربھی تھے شرپسندوں نے کوشش کی کہ وہ آپکے جنازے کوروکیں لیکن حضرت سیدناعلی المرتضیٰ نے مدینہ منورہ کے چندجوانوں کوحکم دیاکہ اگریہ کچھ کریں توانکے ساتھ سختی سے نمٹاجائے۔
حضرت سیدناعثمان غنی کوجنت البقیع سے ملحقہ باغ حش کوکب میں لایاگیاجوآجکل جنت البقیع کاحصہ ہے حضرت جبیربن معطم نے حضرت سیدناعثمان غنی کی نمازہ جنازہ پڑھائی اور سیدناامام حسن ودیگرنے آپ کوقبرمبارک میں اتارا۔روایات میں آتاہے کہ حضرت سیدناعثمان غنی کے جنازہ کے ساتھ سترافرادتھے جنہوں نے آپ کوحش کوکب میں دفن کیااورشرپسندوںکے شرکیوجہ سے آپ کی قبرمبارک کانشان چھپادیا۔ حضرت سیدناعثمان غنی کی شہادت تاریخ اسلام کاسب سے بڑاسانحہ تھاآپ کی شہادت کے بعددین اسلام کاشیرازہ بکھرگیااورتاریخ گواہ ہے کہ مسلمان آپ کی شہادت کے بعدپھرکبھی دوبارہ متحدنہ ہوسکے آپ کی شہادت کے بعدمسلمانوں میں اختلافات بڑھتے چلے گئے جسکے نتیجہ میں اغیارنے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوںمیں کئی فرقوںکوپیداکیااورحضورنبی کریمۖکی یہ حدیث بھی تکمیل کوپہنچی کہ میری امت کے تہترفرقے ہونگے۔
فرمودات۔ بندگی کامفہوم ہے کہ انسان اللہ عزوجل کے احکام پرعمل کرے جوعہدکرے اسے پوراکرے اورجومل جائے اس پرصبرکرے۔ خاموشی غصہ کابہترین علاج ہے۔ جس کے لئے دنیاقیدہے اس کے لئے قبرراحت کامقام ہے ۔ جب کسی کواچھاکرتے دیکھوتواسکے ساتھ شامل ہوجائو۔ جنت کے اندرروناعجیب ہے جبکہ دنیاکے اندرہنسناعجیب ہے ۔ فقیرکاایک درہم کاصدقہ غنی کے لاکھ درہم کے صدقہ سے بہترہے۔ اگرتوگناہ کرناچاہتاہے توایسی جگہ جاجہاںتجھے اللہ نہ دیکھے۔ حیرانگی ہے اس شخص پرجودوزخ کوبرحق مانتاہے مگرپھربھی گناہ کرتاہے۔ افضل ترین ایمان یہ ہے کہ اللہ عزوجل کوہمہ وقت اپنے ساتھ تصورکرے۔ علم بغیرعمل کے نفع دے سکتاہے مگرعمل بغیرعلم کے نفع نہیں دیتا۔