تحریر : حفیظ عثمانی اپنی انفرادی شان اور مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کی سرزمین سعودی عرب کے عوام اور حکمران جمعة المبارک 23 ستمبر کو قومی دن منانے منارہا ہے ۔سعودی حکمران اور عوام اس دن کو انتہائی ذوق اور شوق سے روایتی انداز میں مناتی ہے ۔حکومت اور حکومتی ادارے حتی کہ نجی کمپنیاں اور ادارے بھی اس خوشی کے موقع کو عوام زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کیلئے بے شمار قسم کی رعایتیں دیکر اور خصوصی ڈسکاﺅنٹ سکیموں کے ذریعے پوری دنیا کی عوام تک اپنی خوشی کا پیغام پہنچاتے ہیں ۔ویسے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کے درمیان دنیا کے نقشے پر موجودسعودی عرب رقبے کے اعتبار سے نہ صرف عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے بلکہ اس کی ترقی اور خوشحالی نے بھی اسے دیگر سے ممتاز کردیا ہے ۔ سعودی عرب مملکت کا کل رقبہ 870000مربع میل ہے اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے پندرہ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے ۔ آبادی اندازاًدو کروڑ پچاس لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہے ۔ یہ ملک برا عظم ایشاء، افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے ۔پچھلے 84سالوں سے سعودی عرب میں آل سعود کی حکمرانی ہے ۔ سعد ابن محمد سے لے کر موجودہ حکمران شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک فلاحی اور اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف بڑی عظیم قربانیاں دیں بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے ملک میں امن و استحکام اور سلامی معاشرہ برپا کرنے میں بھی بڑی جرا ¿ت مندی کا مظاہرہ کیا۔
اس خاندان میں امام عبد العزیز ابن محمد ،امام سعود ابن محمد ، امام عبد اللہ بن سعود ،امام فیصل ابن ترکی،عبد بن فیصل ،مسعود ابن فیصل اور پھر محمد ابن سعود ابن فیصل ،شاہ فیصل ،شاہ فہد ،شاہ عبد اللہ جیسے بہت قابل حکمران بھی گزرے ہیں۔موجودہ سعودی عرب کی بنیاد شاہ عبد العزیز ابن عبد الر حمن آل سعود نے رکھی ۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ طویل عر صہ تک نبرد آزمائی کی چونکہ عوام کی اکثریت بالخصوص مذہبی طبقوں کی انہیں مکمل حمایت حاصل تھی ۔ اس لئے تمام مخالفین ایک ایک کرکے ختم ہوگئے ، یہاں تک کے 23ستمبر 1932ءکو جدید سعودی مملکت معرض وجود میں آئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سعودی عرب کے یہ بانی صبر و تحمل ، قائدانہ صلاحیتوں ، اسلام کے لئے درد دل رکھنے او سیاسی بصیرت اور دور اندیشی میں اپنے تمام پیش روﺅں سے بڑھ کرتھے ۔ وہ پرلے درجے کے پر عزم اور مستقل مزاجی کے مالک تھے ۔ انہوں نے پورے عالم اسلام اور مشاہیر اسلام کے ساتھ اپنے روابط قائم کئے ۔ان پر کم و بیش دنیا کی بیشتر معروف زبانوں میں کتابیں لکھی گئیں اور ان کتابوں کے مصنفین نے ان کی خداداد صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا ۔ مملکت سعودی عرب کے قیام و استحکام کے لئے ان کی جدو جہد نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔
سعود ابن محمد سے لے کر موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود تک سعودی عرب کے حکمرانوںیعنی آل سعود کے ان سپوتوں میں جو چیز قدرے مشترک اور بے حد نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام میں ان کی گہری دلچسپی ، ایک فلاحی ریاست کے قیام کے لئے سرتوڑ کوشش اور دنیائے اسلام کے ساتھ گہرے تعلقات کے قیام کی خواہش اور جذبہ ۔چونکہ سعودی عرب میں ایک قبائلی معاشرہ تھا اس لئے شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن نے قبائل کی حمایت اور تائید حاصل کرنے میں بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا اور سب سے زیادہ توجہ ملک میں امن و مان کے قیام اور نفاذ اسلام کی طرف دی ۔ وہ معاشرے میں اسلامی عدل کا مثالی نفاذ چاہتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی عدالتیں قائم کیں اور حصول انصاف کو آسان اور یقینی بنادیا۔
Islam Law
اسلامی قوانین کا نفاذ پوری قوت سے کیا اور خواہ کوئی شخص کتنا ہی با اثر کیوں نہ تھا ،وہ قانون کی زد سے باہر نہ رہا ۔ ان کا یہ اقدام اسلامی تعلیمات اور قرآنی احکام کے عین مطابق تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ہر قسم کی بد عنوانی اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوگیا اور لوگوں کو جان و مال اور عزت کا ایسا تحفظ حاصل ہوا۔جس کی مثال نہیں ملتی ۔ اسلامی سزاﺅں کے نفاذ نے معاشرے کو ہر قسم کے جرم سے پاک کردیا آج بھی آپ سعودی عرب کے کسی حصے میں چلے جائیں ۔ آپ کو تحفظ کاایک ایسا احساس ملے گاجسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، کوئی عورت کسی محافظ کے بغیر سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سونا اُچھالتی چلی جائے ،کسی کو جرات نہیں کہ ُاسے میلی آنکھ سے دیکھ سکے ۔ نفاذ اسلام کے موثر نفاذ کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب میں دیکھے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد کوئی شخص خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو بچ کر نہیںجا سکتا ۔ شیخ عبد العزیز مثالی انداز میں اقتدار کے زریعے مخلوق خدا کی خدمت کی ، ان کے بعد شاہ فیصل بن عبد العزیز 1964ءمیں حکمران بنے ۔ حقیقت یہ ہے زندگی کے تمام شعبوں میں شاہ فیصل مرحوم کے دور میں زبردست ترقی ہوئی اور تعمیر و ترقی کے عظیم منصوبے شروع کئے گئے ۔وہ بے حد منکسر المزاج اور سادہ زندگی بسر کرنے والے حکمران تھے اورعالم اسلام کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو زیادہ گہرے اور دیر پا بنانے میں مصروف رہے۔
پاکستان کے ساتھ اُن کے انفرادی تعلقات کی مثال نہیں ملتی اور مارگلہ کے دامن میں دنیا کی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک شاہ فیصل مسجد ان ہی سے منسوب ہے۔1965ءکی پاک بھارت جنگ میں شاہی خزانے کا منہ پاکستان کی بے حساب اعانت کے لئے شاہ فیصل شہید نے کھول دیاتھا اور کہا تھا کہ ہم صحرائی لوگ ہیں ۔ کھجوریں کھا کر زندگی بسر کر لیں گے پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہو وہ ہم سے لے لے ۔ ہمارا سب کچھ پاکستان کے لئے ہے ۔ وہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان بھی تشریف لائے ۔حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان پر ان کے بے پناہ احسانات ہیں ۔ان کے دور میں سعودی عرب نے اتنی ترقی کی کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل ہوگیا ۔انہوں نے تیل کی آمدن کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا اور سماجی بہبود کے منصوبوں کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ ملک بھر میں سڑکوں کے جال بچھائے۔ملک میں صنعتیں قائم کیں ۔ کئی یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کئے ۔ ان کی کوشش کے نتیجے میں بیت المقدس کی آزادی کے لئے مراکش میں پہلی اسلامی سرابراہی کانفرنس منعقد ہوئی انہوں نے مسلمان ممالک کی ہر ممکن مدد کی جس ملک پر کوئی مصیبت پڑی شاہ فیصل نے اسے اپنی مصیبت سمجھ کر اس کی بھر پور امداد کی ۔ وہ عالم اسلام کے اتحاد کے عظیم داعی تھے اور مسلمانوں کو ایک ناقابل تسخیر قوت دیکھنا چاہتے تھے۔
1975ءمیں ان کی موت کے بعد شاہ خالد بن عبد العزیز نے اقتدار سنبھالا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے پیش رو کی طرح گہری دلچسپی لی ۔ ان کے دور میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ خلیج تعاون کونسل کا قیام بھی ان کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ کونسل آج بھی قائم ہے ۔ اس نے خلیج کے عرب ممالک کے درمیان اتحاد کے رشتوں کو مظبوط بنایا ہے ۔1982 اقتدار شاہ فہد کو ملا ۔جونظام حکومت کا وسیع تجربہ رکھتے تھے ۔وہ اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے ملک کے وزیر تعلیم کے طور پر بھی کام کرتے رہے ،وہ نہایت تجربہ کار اور دو ر اندیش حکمران تھے۔
Shah Abdullah
ان کی رحلت کے بعد شاہ عبد اللہ نے زمام اقتدار سنبھالی اور عوامی فلاح کے علاوہ دنیا بھر میں آباد کروڑوں مسلمانوں کے دکھ درد کو بانٹا ،پاکستان میں 2005ءکے زلزلہ کے موقع پر تاریخ کی سب سے بڑی اعانت کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لیے اور حرمین شریفین کی توسیعات کے زریعے شاندار کارنامہ سر انجام دیا ۔ان کی وفات حسرت آیات کے بعد شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کے سر اقتدار کا ہما بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک زیرک ،مدبر،دانا اور حکیم سربراہ مملکة کے نام سے دنیا بھر میں عموما اور عالم اسلام میں خصوصاًمقبول ہوگئے ، انہوں نے سعودی عوام کے لیے بہت سے ایسے اہم فیصلے کیئے جن کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی وہ ایک طویل عرصہ عوامی خدمت کے میدان میں مختلف مقامات پر کامیاب سفارتکاری، سیاسی فیصلہ سازی،بین الاقوامی امور اور عالمی میڈیا کے تناظر میں قبل ازیں اپنے برادران کے دور اقتدار میں ایک کامیاب شخص کے طور پر معروف رہے ہیں اور سعودی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جن منصوبوں کی انہوں نے بنیاد رکھی وہ اپنی مثال آپ ہیں جبکہ مصیبت زدوں ، مفلسوں ،یتامیٰ ،بیوگان کی امداد اورمشکل گھڑی میں فراخدالی کی اُن روایات کو فروغ دیا جو قابل تقلید ہونے کے ساتھ ساتھ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آل سعود کو عرب دنیا میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک فلاحی ،رفاہی ،تعلیمی ،ادبی ،مذہبی اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام میں کامیابی حاصل ہوئی جو واقعی کمال بات ہے کیونکہ اس فلاحی ریاست میں پورے ملک میں تعلیمی ادروں کے جال بچھائے گئے ہیں اور تعلیم کے اخراجات بڑی حد تک حکومت برداشت کرتی ہے ۔ طویل اور آرام دہ سڑکیں تعمیر کی گئی ،ڈاکخانے،مواصلات ،بے مثال کالج و سکول یونیورسٹیاں ،صنعتی ادرے ، ثقافتی مراکز ،نشریاتی ادرے ، سائنس اور فنی تعلیم کے اعلی مراکز ہر جگہ قائم ہیں ۔ سعودی عرب نے زراعت میں بھی اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ گندم کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے ۔ ہر سال لاکھوں حجاج کرام سعودی عرب پہنچتے ہیں ۔اُن کی رہائش اور دوسری سہولتوں کی فراہمی پر شاہ سلمان بن عبد العزیز کی حکومت نہایت فراخدلی کے ساتھ بے پناہ دولت خرچ کرتی ہے ۔حرمین الشریفین کی توسیع کا کام مسلسل جاری ہے ۔اربوں ریال مسجد حرام اور مسجد نبوی ﷺ کی توسیع پر خرچ کیے جارہے ہیں۔
سعودی عرب کے شہریوں کو جو سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں ۔ ان کی مثال نہیں ملتی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ معاشرہ نہایت پر امن اور پر سکون ہے ۔ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ہرشخص مطمئن اور خوش ہے ،سعودی عرب کے تقریباًتمام حکمران پاکستان تشریف لاچکے ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نہایت گہرے اور مثالی قسم کے ہیں ۔ کشمیر کے تنازعے پر سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ پاکستان کے ہزاروں طلبہ سعودی عرب کی متعدد یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے مختلف ملکوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لئے سعودی عرب کے حکمرانوں نے ہمیشہ دل کھول کر دولت خرچ کی اور تعلیم وتعلم کے میدان میں کھلے دل سے امداد دی۔ تاکہ دنیا میں اسلام پھیلے پھولے اور دنیا اسلام کی رحمتوں اور برکتوں سے بہرور ہو سکے ۔ پاکستان کے لاکھوں شہری سعودی عرب میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں۔