افسانہ‎

Accusation

Accusation

تحریر : عماد ظفر
اس نے غور سے تمام افراد کی جانب دیکھا.اور پھر کہا کیا اس وطن میں بسنے کیلئے آپ کا جاری کردہ سرٹیفیکیٹ لینا ضروری پے؟ جواب میں پے درپے تھپڑ رسید ہوئے. اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا گھر پر بچے اور بیوی پریشان تھے. اس نے فورا کہا حکم کیجئے کہا کرنا ہے؟ جواب ملا تم مٹی کے غدار ہو بیرونی ایجینسیوں سے تعلق رکھتے ہو. اور پھر اس کو ایک بوری میں بند کر کے ایک سائڈ پر رکھ دیا گیا. اس کا سانس لینا مشکل تھا لیکن شاید صیاد نے کچھ دستخط رکھے ہوئے تھے اس لیئے اس کی سانسیں چل رہی تھیں.اس کی سماعتوں میں دوستوں اور کولیگز کے جملے بار پا گردش کر رہے تھے کہ یہ اندھوں بہروں اور گونگوں کا معاشرہ ہے اس لیئے چپ کر کے کسی کے زیر سایہ ہو جاو اور پھر لکھو.لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی. اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ بہت سے افراد کو علم ہے کہ اسے دھمکیاں دی جا رہی تھیں اس کے کالمز ایک خاموش سنسر شپ کی زد میں آ رہے تھے.لیکن پھر کچھ گھنٹے بیتے اور اسے برف کی سل پر برہنہ لٹا دیا گیا. صیاد آئے اور حکم جاری کیا کہ اس کے بچوں کو بلاؤں۔

یہ ایک تکلیف دہ امر رجحان بچے چیخ چیخ کر پکار رہے تھے اور وہ شرمندگی کے مارے کچھ نہیں کہ سکتا تھا. اسے محسوس ہوا کہ شاید یہ آخری ساعتیں ہیں اور اسے پروردگار کے سامنے حاضری دینی ہے اس نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا اور پھر اس کی آنکھوں کے آفت اندھیرا چھا گیا. آنکھ کھلی تو چند خوش باش لوگوں کو اطراف میں پایا جنہوں نے اس رویے اور اغوا کی مزمت کی اور اسے بتایا کہ وہ سب اس کی بہت عزت کرتے ہیں بلکہ کچھ تو اس کے فین بھی ہیں.البتہ اس کے اور بچوں کی بہتر زندگی کیلئے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف وہ بولے اور چھاپے جو وسیع تر مفاد میں ہو. اس قدر زلت سبکی کے بعد وہ جان چکا رھا کہ آزادی اظہار رائے کی کیا اہمیت ہے سو اس نے ہامی بھری اور جان چھڑوای.گھر پہنچ کر دیکھا تو اعلی عہدیداروں اور حلقوں کی جانب سے بہت سے پیغامات تھے کہ خدا آپ کی حفاظت کرے. وہ مسکرایا اور صرف یہ کیہ پایا کہ خدا نے حفاظت کر دی لیکن ناخداؤں سے کون بچاتا.جو غیر انسانی سلوک اس کے ساتھ برتا گہا وہ کسی کو نہیں کیہ سکتا تھا۔

صیاد نے اس کے ایک مخصوص فرقے دوسرے بولنے اور لکھنے کی وجہ سے پہلے اسے غیر مسلم قرار دیا اور بعد میں بیرونی قوتوں کا ایجنٹ.اس پر بھی بات نہ بنی تو کچھ زاتی پہلووں کو سامنے لا کر انھیں نتائج کی دھمکی دی.وہ کبھی نہیں ڈرا تھا اور نہ آج ڈرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں. جو موت حسین کو نصیب ہوئی سقراط کو نصیب ہوئی وہ قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے لیکن پھر حققیقت اور آگہی نے اس کے شعور پر دستک دہ اہل برف بلکتے بچے اور جیون ساتھہ تھے اور دوسری جانب اس پیشے کا تقدس. اس مے بہت غور کیا اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچا کہ زندگی تلخ اور کڑوی ہے اور کہاں وہ پیدا ہوا ہے۔

Society

Society

اس معاشرے میں انسانی جان کی قدر و قیمت ہرچند نہیں. وہ جانتا تھا اسکےمہ لکھنے یا مہ بولنے سے کسی کو فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کو اپنی اوقات کا اندازہ پو چکا رجا سو اس نے گھر میں موجود لائبریری کو آگ لگائی. کتابوں کو پھاڑا اور قلم کو توڑ کر پھینک دیا.اسے ان تمام دوستوں کی باتیں اور نصیحتیں یاد آ رہی تھیں جو اسی سمجھاتے تھے کہ سچ نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں آپ کو ایک نہ ایک سائیڈ ضرور لینی پڑتی ہے.اسے یہ نھی یاد آ رہا تھا کہ کچھ صحافی دوست اسے پٹواریوں کا لفافہ بردار صحافی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے حالانکہ در حقیقت وہ جو بولتا اور لکھتا تھا وہ معلومار اور ضمیر کی آواز پر ہوتا تھا. اس نے ایک سال اپنے بڑے بیٹے کے سکول کا صرف اس لیئے ضائع کیا کہ ایک “انقلابی جماعت” کے سورماؤں اور وطن کے “ٹھیکیداروں” نے اس بچے کے سکول تک میں یہ مشہور کروا دیا کہ اس کے باپ کا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے اور وہ ‘غدار” ہے اور نون لیگسے “لفافہ” لیتا پے. اس نے یہ چوٹ بھی تحمل سے برداشت کی.لیکن اب بس. وہ تھک چھکا تھا اس کے ہر کاروبار ہر مواقعوں کو صیاد نے بڑی کامیابی دے بند کروایا اور ایک عجیب وغریب پیشکش اس کے سامنے رکھی۔

اس نے نفی میں جواب دیتے ہوا کہا کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کر سکتا.البتہ آینده محتاط رہے گا. وہ یہ بھی تحریر نہیں کر سکتا تھا کہ وہ بھیانک پیشکش کیا تھی.خیر اس کا انجام سو ہو وہ ہو آپ کو بتاتا چلوں کہ ٹین ایج میں وہ اخبار میں کام کرتا تھا. 2001میں نو عمری دور میں اس مے جنرل مرحوم حمید گل کا انٹریو کءا اور حمید گل نے آخر میں فرمایا کہ یہ میری زندگی کا ٹف ترین انٹرویو تھا. اد کو وزیر خارجہ خورشید قصوری نے دوران انٹرویو مشرف کے بام عروج میں یہ کیہ کر باہر نکالا کہ تم اتنے سوالات کیوں کرتے ہو۔

بہت کم لوگ مرحوم امان الہ خان کو جانتے ہوں گے جو کشمیر کی تحریک میں ایک مسیاں مقام رکھتے تھےنوہ ہمیشہ اس کو اس کت نام سے پکار کر کہتے تھے کہ آئی اہم پراوڈ آف یو خیر بات صرف یہ ہے کہ اگر اپنی پی زمین پر زندہ رہنے کیلیے سرٹیفیکیٹز اور اثبات کی ضرورت ہو اور ایک خاص طبقے سے ہاں بھی چاہیے پو تو پھر کیا لیا جائے. مٹی کو چھوڑ کر کہیں اور با بھی جائیں تو مٹی کی خوشبو پکارتی رہتی ہے. شاید وہ آئندہ لکھے اور بولے گا نہیں.لیکن اس کو معلوم پے کہ اب اذپاں سوال کرتے ہیں اور یہ اد معاشرے کی ترقی کیلیئے ازحد ضروری ہیں۔

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر

Accusation

Accusation