پولیس یونیفارم نہیں سسٹم تبدیل کریں

Police

Police

تحریر : ملک محمد سلمان
پولیس کا نام آتے ہی کئی لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں کیوں کہ بظاہر پولیس کا امیج ڈرؤنا اور خطرناک ہے۔یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ تھانہ پولیس والوں کی ایک علیحدہ سلطنت ہوتی ہے جہاں وہ ہرسیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ ایف آئی آر درج کروانے اور اسے خارج کروانے کے چارجز مختلف ہیں، بے گناہ اور غریبوں پر مظالم کی بے شمار داستانیں ہیں۔ عید اور فوری گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کا فن صرف اور صرف پولیس والوں کی ایجاد ہے کہ کہیں بھی دستی چیک پوسٹ لگا دیں۔

تھانہ کلچر کوبگاڑنے والے کوئی اورنہیں ہم خود ہیں ،اگررشوت کی وصولی حرام ہے تودینا بھی حلال نہیں۔مانالوگ جائزکام کیلئے بھی رشوت دینے پرمجبورہیں مگر زیادہ ترواقعات میں شہریوں کے ناجائز اورمذموم مقاصد کی تکمیل اور دوسروں کو انتقام کانشانہ بنانے کیلئے پولیس کاسہارا لیا جاتا ہے۔ہم من حیث القوم بدنیت ،بددیانت ،کام چور ،متعصب ،منافق اورفاسق ہیں۔جہاں پورامعاشرہ اورنظام بدعنوانی اوربدانتظامی کی بندگلی میں کھڑا ہووہاں کوئی ادارہ کس طرح صاف ستھرارہ سکتا ہے۔

ہرفرد،ادارے اورمعاشرے میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔دنیا کاکوئی معاشرہ اورادارہ پوری طرح گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے۔تاہم ان گندی مچھلیوں کے سبب مجموعی طورپر اس ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ہم افراد اور اداروں پرتنقیداوران کی توہین کرتے وقت ان کی معاشرے کیلئے ضرورت اور اہمیت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔پولیس کا ادارہ کسی بھی ملک اورمعاشرے کیلئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔جس طرح ہمارے فوجی سرحدوں کے محافظ ہیں،وہ ہماری آرام دہ نیند کیلئے خود رات بھرجاگتے اوردشمن کی سنگینوں سے نکلی گولیاں روکنے کیلئے اپنے سینوں کوڈھال بناتے ہیں۔

Police Security

Police Security

اس طرح شہروں میں امن وامان برقراررکھنے کیلئے پولیس کے آفیسراوراہلکار سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔مسجد،مدرسہ ،مجلس عزا ،مقدس شخصیات کے مزار،عرس ،عدالتوں،جلسہ ،جلوس ،بنک،وی آئی پی روٹ،ججوں کے گھروں سمیت وی آئی پی حضرات کے محلات کی حفاظت اورالیکشن ڈے سمیت کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہوتوپولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔یہ چوروں،ڈاکوؤں اورقاتلوں کاتعاقب اورانہیں گرفتارکرتے کرتے کئی بارموت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی اوقات آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کرتے ہیں،مگر انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا،بعض اوقات سیکورٹی کی وجہ سے پولیس اہلکا روں کو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے،تہواروں کے موقع پر یہ اپنی خوشیاں چھوڑ کر ہماری حفاظت کے لئے ڈیوٹی کرتے نظر آتے ہیں،مگر پھر بھی پولیس کا محکمہ چند کالی بھیڑوں کے سبب بدنام کردیا جاتا ہے۔اچھی کارکردگی دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔کیا ریاست کے پاس پولیس کاکوئی متبادل ادارہ ہے؟ پولیس آفیسرز انگوٹھاچھاپ سیاستدانوں کی طرح ووٹ لے کر نہیں آتے بلکہ یہ فوج کی طرح تعلیم وتربیت کے کئی کٹھن مرحلے طے کرکے اس مقام تک آتے ہیں۔

عام شکایت پولیس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ رشوت خور ہے، کرپٹ ہے۔ہوگی ضرور ہو گی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ” الناس علی دین ملو کھم ” اگر ملک کا صدر ، وزیراظم، وزیر، مشیر ، ایم پی اے، ایم این اے سبھی رشوت خور ہیں تو ان حالات میں پولیس اہلکار کیسے فرشتے بن سکتے ہیں؟ اگر آپ پولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ریاست اور ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی،امن وامان قائم کرنے والوں کے گھر والوں ان کے بیوی بچوں کو سب سے پہلے امن و سکون مہیا کیا جانا چاہیے،فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن اور پی اے ایف اسکول قائم ہو سکتے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے کیوں نہیں،باقی فورسز والوں نے اپنے حاضر و ریٹائرڈ افسروں اور اہلکاروں ان کے بچوں حتی ٰ کے ان کے ماں باپ کی ویلفئیر اور علاج معالجے کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے مگر پولیس والوں کے بچوں کے اسکولز اور ان کے والدین کے علاج کے آگے سوالیہ نشان کیوں ہے؟

Corruption

Corruption

پولیس فورس کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے یونیفارم نہیں سسٹم تبدیل کریں،اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کرناہوگا۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کیلئے اپنے وفادار ڈی پی اوزاور ایس ایچ اوزکی پوسٹنگ پراثراندازہوتے ہیں۔پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ہے،جس سے نجانے کب جان چھوٹے گی ،چھوٹے گی بھی یا نہیں،کوئی پولیس والا آزاد رہ کر پرسکون ماحول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے سکتا،ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر کسی ایم این اے ایم پی اے کو انکا رکیا تو اگلے دن کہیں دور دراز بیٹھا ہو گا،اب اگر ایک ایس ایچ او کو تعینات ہی ایم پی اے یا ایم این اے کرواتا ہے تو وہ کیسے اپنے متعلقہ سیاسی آقا کو انکار کر سکتا ہے۔

حکومتی ارباب اختیار اگرپولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں ان سے کوالٹی ورک لینا چاہتے ہیں تو ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کردیں ان کو شارپ شوٹر نئی گاڑیا ں نئے موٹر سائیکل مہیا کر دیں پھر دیکھیں کہ یہ لوگ کیسے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں،جہاں عام سیکورٹی ادارے فیل ہو جاتے ہیں وہاں پہ آرمی فی الفور کنٹرول کر لیتی ہے وجہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ،فراہم کردہ بہترین وسائل کا استعمال بھی بہترین کرتے ہیں،پولیس ناکام کیوں وجہ صرف بے جا سیاسی مداخلت ہے ورنہ پولیس کے جوان بھی نہ صرف اپنے فرائض سے بخوبی اگاہ ہیں بلکہ جرائم کے خاتمے کیلئے بہترین اہلیت رکھتے ہیں،فرق صرف مکمل اختیارات اور ان کے استعمال کا حق دینے کا ہے۔

Malik Salman Logo

Malik Salman Logo

تحریر : ملک محمد سلمان
0300/880566