تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم جل شانہ کی لا محدود حمد ثناء رسالت مآب محمد رسول اللہۖ کی پاک بارگاہ میں کروڑوں بار درود و سلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے احباب کے اصرار پر آج جس حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ ایک ملکی ہی نہیں بین الاقوامی مسئلہ ہے ہزاروں تنظیمیں اور سرکاری محکمے اس پر کام بھی کررہے ہیں مگر اساس کمزور ہو تو اس پر محل تعمیر نہیں ہوتے ارباب اختیار یا کسی بھی این جی او نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی یا پھر دانستہ اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ایک بین الاقوامی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق اس کے ایک اہم عہدیدار نے اپنے بیان میں کہا کہ 2116 میں پاکستان کے پاس کاشت کے لیے زمین نہیں ہوگی یعنی زرعی زمین آبادی یا شہروں میں تبدیل ہو جائیگی دوسرا بیان زراعت کے ماہرین کا ہے کہ پاکستان کی ناقص منصوبہ بندی کی بدولت پانی کی قلت سے زمینیں بنجر ہو جائیں گی کسی بھی ریاست کی کامیابی میں اس کے بنیادی ستون عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ہر ادارہ اگر اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتا رہے تو ریاست ترقی کی جانب رواں رہتی ہے دنیا کے نقشہ پر موجود وہ ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے مگر آج وہ ترقی کرکے ہر میدان میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔
انکے ارباب اختیار نے کوئی ذاتی انویسٹمنٹ نہیں کی بلکہ انہی اصولوں پر کاربند وہ آج بھی دنیا پر حکومت کرنے جارہے ہیں ہمارے بنیادی ستونوں میں سے ہر شعبہ نے اپنے فرائض منصبی اول تو پوری طرح ادا ہی نہ کیے بلکہ دوسروں کے کام میں مداخلت کو اپنا فرض عین سمجھا عدلیہ کا کام ملکی قوانین کے مطابق عوام الناس کو انصاف فراہم کرنا مجرموں کو سزا دینا ہوتا ہے مگر معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے متعدد چیف جسٹس صاحبان نے سیاست بھی کی اپنے عہدے کی پرواہ کیے بغیر من موجی بندے کا کردار ادا کیا دل کیا تو سموسہ میں آلو کم ڈالنے پر سو مو ٹو لے لیا اور دل نہ کیا تو کسی مظلوم کی فریاد پر بھی پرواہ نہ کی مقننہ نے اول نو قانون سازی کی ہی نہیں اور اگر کی بھی تو قانون میں ایسی ترامیم کے علاوہ کچھ نہ کیا جس سے انکا ذاتی مفاد وابستہ رہا بلکہ اب تو شائد عوامی سطح پر یہ شعور ہی نہ رہا کہ قانون بنانا کن لوگوں کا کام ہے بلکہ اسے اتنا نیچا کر دیا گیا کہ عوام اب صرف اتنا جانتی ہے کہ اسمبلی ممبران وزراء مشیران کا کام اپنے اپنے علاقوں میں پل سڑکیں اور گٹر بنوانا ہی ہے اور وزیر اعظم نے صرف انہی منصوبوں کی منظوری دینا اور انکے لیے درکار رقم مہیا کرکے اپنا حصہ رکھ کر انکی تکمیل کروانا ہوتی ہے۔
Law
تیسرا اور ان دونوں سے اہم شعبہ انتظامیہ ہے جسے ہر حکمران نے عوامی خدمت مال جان کے تحفظ کے بجائے اپنے نجی ملازمین سمجھا اور اس شعبہ کو بھی اپنی اصل ذمہ داریوں سے ہٹاکر ذاتی کاموں میں مصروف رکھا جس کی مثال ہمارے وزراء مشیران کرام اور انکے رشتہ داروں کے آگے پیچھے اور گھروں پر سیکورٹی کے لیے تعینات پولیس کے جوانوں کی تعداد گن لیں تو بات سمجھ میں آجائیگی اب ان اداروں کے کام کون کرے اس طرح ملک میں لا قانونیت اور عدم اعتماد کی فضاء نے فروغ پایا اور ہر مال دار نے اپنے پیسے کے بل بوتے پر ملکی وسائل کو زرخرید بنانے کسر نہ چھوڑی جسکی مثال ہمارے سیاست دانوں کے اثاثے گواہ ہیں کہ انکے پاس ذاتی جہاز بھی موجود ہیں مگر ملک مقروض چلا آرہا ہے۔
ہر حکومت میں ایک وزارت منصوبہ بندی کی ہوتی ہے جس نے ضلعی سطح تک اپنے ملازمین منصوبہ سازی کے لیے رکھے ہوتے ہیں ہر ضلع میں ایک ایگزیکٹو آفیسر پلاننگ تعینات ہوتا ہے جو عوامی نمائندوں اور حکومتی نمائندوں ( ڈی سی او صاحب اور ضلعی حکومت کا ناضم یا چئیرمین ) کے مشورہ سے علاقہ کے مسائل کے حل کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے عوام کی بنیادی سہولتوں میں ایک اہم سہولت مکان ہے جسکا ہمارے انقلابی لیڈر بھٹو صاحب نے اپنے منشور میں بھی نعرہ لگوا دیا کہ روٹی کپڑا اور مکان ہر کسی کا حق ہے اور اسے پیپلز پارٹی مہیا کریگی یہ ایک الگ داستان ہے کہ وہ اپنے اس منشور کی پاسداری کرسکے یا نہ مگر ہمارا موضع آبادی ہے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ اس کی آباد کاری کے لیے زمین اور مکان کی ضرورت ایک بنیادی ضرورت ہے جو ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق اپنے زیر کفالت افراد کو مہیا کرتا بھی ہے۔
Growing Population
خواہ وہ کرایہ پر ہی کیوں نہ لے مگر ہماری حکومتوں نے اسے محض اپنے نعروں میں تو رکھا مگر اس کے لیے عملی کام آج تک نہ ہوا کسی پلاننگ آفیسر نے آج تک اپنے ضلع کی آبادی کے لحاظ سے کوئی ایسا منصوبہ بنایا ہی نہیں جس سے عوام الناس کو مکان کی سہولت میسر ہو سرکاری سطح پر کوئی ایسی رہائشی کالونی تعمیر کر دی جائے جس سے عام آدمی بالخصوص کم آمدنی والا طبقہ مستفیذ ہوسکے اسکے بر عکس اتنی غفلت کہ مالدار طبقہ کو اس کام کی کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ اس سہولت کے نام پر عوام کا مال جیسے مرضی لوٹیں اور انکے لیے کوئی قانون ہی نہ بنایا گیا۔
کالونی مافیا گروپ وجود میں آیا اور اس نے وطن عزیز کی بھولی عوام کو اپنا گھر اپنی جنت اور ایسے ہی دل چسپ سلوگن دیکر لوٹنا شروع کر دیا جس کے منفی اثرات میں یہ بات آج تک کسی نے سوچی ہی نہیں کہ کالونی مافیا نے رہائشی سہولتیں دینے کے نام پر کتنی زرعی اراضی کو بنجر کر دیا جس کی پنجاب کے دل لاہور میں واقع سب بڑی مثال جوہر ٹائون ہے ہزارہا ایکڑ اراضی جو پچھلے طویل عرصہ سے جوہر ٹائون کی انتظامیہ کی ملکیت ہے آج تک مکمل آباد نہ ہوسکی اور اسکی زرعی آمدن کو اسوقت سے بند کردیا گیا جب سے اسے جوہر ٹائون کا نام دیا گیا ہے بڑھتی ہوئی آبادی نے تو لاہور کو قصور اور مانگا منڈی تک پھیلا دیا ہے مگر اندرون جوہر ٹائون ہی ابھی ہزارہا پلاٹس خالی پڑے ہیں۔