تحریر : تنویر احمد اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ بھارت کی موجودہ انتہا پسند حکومت مسلمانانِ ہند اور خصوصاً کشمیریوں کی دشمنی اور پاکستان سے حسد کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ انسانوں کا خون پینے والے ڈریکولا نریندر مودی نے شروع سے لے کر اب تک کے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور خاص کر کشمیریوں کا قلع قمع کر کے بھارت اور مقبوضہ کشمیر کو کٹر ہندو ریاست میں بدلنا چاہتا ہے۔ایک طرف گائے کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف وادی بھر میں گزشتہ 75دنوں سے آٹھ لاکھ انڈین فوجی نہتے کشمیریوں کے بدن پیلٹ گن سے چھلنی کر رہے ہیں، نوجوانوں کی، بچوں کی، بوڑھوں کی اور عورتوں کی لاشیں گر رہی ہیں، بدن چھلنی ہو رہے ہیں؛ گھر غنیم کے محاصرے میں ہیں۔ انسانی حقوق کے سبھی چیمپئن خاموش ہیں؛ اخوت اسلامی کا نغمہ گانے والی سب زبانیں گنگ ہیں؛ کشمیر کے نام پر سیر سپاٹا کمیٹیاں بھی ساکت و جامد ہیں، وائے کشمیر!!۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کی پوری نسل بغاوت پر اتر آئی ہے۔ یہ کارپوریٹ میڈیا کے زور پر چلنے والے ارب پتی سرمایہ داروں کے گماشتہ سیاستدانوں کے دھرنے اور ریلیاں نہیں ہیں جن میں شرکاء کو صبح کا ناشتہ ، دوپہر اور شام کا پر تکلف کھانا پیش کیا جاتا ہے اور تمام تر بیان بازیوں کے باوجود ریاست میزبان بنی ہوتی ہے۔ یہ ایک دیوہیکل اور جابر ریاست کے ساتھ کشمیری عوام کا ٹکراؤ ہے، ننگے جبر سے ٹکرا جانے والی تحریک حریت۔ کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے زندگی موت کی لڑائی ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جبر و استحصال کے خلاف جب عوام کی بغاوت پر مبنی ایسی وسیع تحریکیں ابھرتی ہیں تو بظاہر ناقابل شکست نظر آنے والی ریاستیں اور حکمران بھی بوکھلاہٹ، ذلت اور شرمناک پسپائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے تمام ہتھکنڈے ذلّت آمیز شکست سے دوچار ہورہے ہیں۔ جبر جب کام نہ کر سکا تو آئینی، قانونی اور سیاسی فریب سے تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ واردات بھی ناکام رہی۔جو پارلیمانی وفد کشمیر بھیجا گیا اس کا سربراہ کٹر ہندو بنیاد پرست اور کرپشن کے لیے بدنام زمانہ راج ناتھ سنگھ تھا۔ یہ پارلیمانی فریب اپنے آغاز سے ہی ناکام تھا۔ عوام نے جب دہائیوں تک ستم برداشت کئے ہوں، نسلیں قربان ہوئی ہوں تو ایسے میں مصالحت بھلا کیسے ہو سکتی ہے اور مفاہمت کون برداشت کر سکتا ہے۔
Protest at UK
یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ برطانیہ کے عوام کو کیا ضرورت تھی باہر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی؟ برطانیہ میں کبھی کسی نہتے کے جسم کو پیلٹ گن سے چھلنی نہیں کیا گیا، برطانیہ میں کسی پر آنسو گیس نہیں استعمال ہوئی ،کبھی کسی پر مرچوں والے گولے نہیں پھینکے گئے، برطانیہ کے ہسپتالوں میں ایک بستر پر چار چار مریض نہیں پائے جاتے، برطانیہ میں کبھی ہسپتالوں میں گولیاں نہیں برسائی گئیں، برطانیہ میں تو کوئی سیاستدان دشمن ملک کے لیے ہمدردی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی ملکی مفادات پر اپنی ذات کو ترجیح دیتا تھا تو پھر ایسا کیوں تھا کہ جاہل بے وقوف عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے ہوا کیا تھا بھلا؟ پھر کیوں عوام اتنے بپھرے ہوئے تھے؟ تو بات یہ تھی کہ وہ ٹھہرے با شعور اور غیرت مند! جب برطانیہ کے عوام کو ریفرنڈم کا حق مل سکتا ہے تو کشمیریوں کو کیوں نہیں ؟
کیا کشمیریوں کے لیے اقوام متحدہ نہیں بنی، کیا ان پر ہونے والا ظلم انسانی حقوق کی تنظیموں کو نظر نہیں آتا؟ کیا کشمیریوں نے بیٹے،بچے،بڑے، بوڑھے اور عورتوں کی عصمتیں جو قربان کی عید پر سوکھی روٹیاں پانی میں بھگو کر کھائیں کیا یہ ظلم میں شمار نہیں ہوتا؟اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک اور منافقت سے چھٹکارا پانا ہوگا!کشمیر کے لئے حافظ محمد سعید کی تڑپ کو ہم بھارت کی نظر سے دیکھنا بند کر دیں۔ وہ بھارت کے لیے شمشیر برہنہ ہیں اور اسلام کی جہادی روایات کے امین ۔امریکہ اور نیٹو کی افواج کو اگر حق حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر کو روندتی پھریں تو حافظ سعید کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو زندہ رکھیں اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے اور بلاول کہتا ہے کہ پورے کشمیر کو پاکستان بنائیں گے، میاں نواز شریف صاحب مظفرآباد میں کشمیریوں کے حق میں نعرے لگاتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان تو پھر حافظ سعید کا کیا قصور ہے؟ وہ بھی کشمیر کو (اسلام کی جاگیر) اور پاکستان کا حصّہ (قلعہ) بنانے کے عزم سے سرشار ہیں۔
دن بدن کشمیر میں بھارتی درندگی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس نازک موقع پر میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ عرش عظیم کا رب اس مظلوم خطہ کے مسلمانوں کے دن بدلنے والا ہے. جوں جوں بھارتی مظالم، سرحدوں پر برہمنی شرارتوں اور رام کے چیلوں کی خباثتوں میں شدت آ رہی ہے تو اس کے ساتھ ہی پسے بھارتی مسلمان اور زخمی کشمیری اپنے فطری حق آزادی کے لیے قربانیوں کی داستان رقم کرنے میں مستعد کھڑے نظر آرہے ہیں۔آج کشمیری قوم پاکستان کی ایک مخلص قیادت کی راہ دیکھ رہی ہے جو کشمیریوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد اور امت کے زخمی انگ انگ پر مرہم رکھنے والی ہو۔کاش ! کہ آج کشمیریوں کی پکار پر شریف پاکستان اور شاہینوں کے چیف راحیل شریف لبیک کہتے ہوئے محسنین پاکستان;کشمیری قوم؛ کے دکھ درد کا مداوا کریں۔