تحریر: وقاص ظہیر بطور انسان ہم جس معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں ہمیں ہر دور میں نئی سے نئی معلومات کی جستجو اور تجسس رہا ہے ، گو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام رساں انبیا کرام علیہ السلام کے ذریعے دنیا و آخرت کا علم زمین پر ہمارے لئے مکمل کر تے ہوئے ہم پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد کردی گئی کہ ہم اس پر تدبر کرتے ہوئے اس میں ایسی ایسی معلومات کو تلاش کریں جو بہت کم لوگ جانتے ہوں تاکہ وہ بھی علم کے اس قیمتی زیور سے خود کو آراستہ کرتے ہوئے نہ صرف اسے اپنی اصلاح کیلئے استعمال کیلئے بلکہ دیگر انسانی کی بھلائی کے کاموں میں صرف کریں جس کی تعلیم دنیا کے تمام مذاہب دیتے ہیں۔
گزشتہ کئی روز قبل میرے نہایت دلعزیز، ملنسار اور مخلص دوست جیسے بھائی نعیم مرتضیٰ نے مجھے اپنی کتابٴٴ واقعات لاہورٴٴ کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت دی تاکہ وہ اپنی کتابی شکل میں ترتیب دیئے ہوئے مواد کو ہم تک پہنچائیں اور ان کی نئی تنصیف میں جو کمی کوتاہی رہ گئی وہ آئندہ ایڈیشن میں پوری کر سکیں ، نعیم مرتضیٰ اس سے قبل بھی مسلسل پانچ سالہ کی شبانہ روز محنت سے کھیوڑہ پر ایک لاجواب کتاب لکھ چکے ہیں ، محمود منگول کے دفتر میں مقصود چغتائی ، ڈاکٹر امین اور ادب سے تعلق رکھنے والی دیگر اعلیٰ شخصیات شریک ہوئیں ، تمام شرکائ کو مصنف نعیم مرتضیٰ کی جانب سے خلوص کے ساتھ تنصیف ٴٴ واقعات لاہور ٴٴ پیش کی گئی۔
Historical Studies
جب سے مجھے ا س کتاب کے مطالعہ کا موقع ملا ہے یقین جانیں کہ تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناطے مجھ ایسے محسوس ہوا کی میں تو ابھی تاریخی مطالعہ کی الف ، ب بھی نہیں سیکھ پایا کتاب میں ایسے ایسے لاجواب تاریخی واقعات موجود ہیں جو کئی بار مجھے تین صدی پچھلے ریاست مغلیہ کے دور میں لے گئے اور کئی بار مجھے آج کے دور میں واپس لے آئے ، ایسی تنصیف یقیناََ ایک ، دن ، ایک ہفتہ ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں لکھی جاسکتی بلکہ ایسے تحقیقاتی کام کیلئے سالوں درکار ہوتے ہیں۔
ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ لکھنے کے لیے لاتعداد ماخذوں ، انواع علوم و معارف، حسنِ نظر اور اصابت رائے کی ضرورت ہے تاکہ گہر افکر اور اصابت رائے مطالعہ کرنے والے پر حق کو واضح کر دے اور وہ حق کی روشنی میں کوتاہیوں اور غلطیوں سے محفوظ رہے کیونکہ اگر خبروں میں صرف نقل پر اعتماد کیا جائے اور اصولِ عادت ،قواعد سیاست ، مدنیت کی طبیعت اور معاشرے کے حالات کو پنج نہ بنایا جائے۔
Mistakes
موجود کا غیر موجود اور غائب کا حاضر پر قیاس نہ کیا جائے تو ان میں بہت سی کوتاہیوں اور غلطیوں کا سیدھی راہ سے ہٹ جانے کا امکان باقی رہتا ہے چنانچہ مورخیں، مفسریں اور ائمہ نقل کو حکایات و واقعات میں بہت سی غلطیاں صرف اس لیے پیش آئیں کہ انہوں نے صرف نقل پر بے شک غلط ہو یا صحیح قناعت کرلی اور واقعات کو ان کے معیار پر رکھ کر نہیں دیکھا۔
میرا تاریخ کے طالب علموں کو برادرانہ مشورہ یہ ہے جو کوئی سینکڑوں کتابوں کے بجائے ایک ہی کتا ب میں تاریخی معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ ایک بار ٴٴ واقعات لاہورٴٴ کا ضرور مطالعہ کریں جس میں مصنف نے چند بکھرے ہوئے صفحات میں صدیوں کی تاریخ کو قلمبند کر دیا ہے ، تاہم کتاب میں موجود اہم اور نایاب معلومات قاری کے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھیں دعوتِ فکر بھی دیتے نظر آتے ہیں ۔ مصنف نے اپنی کتاب میں تاریخ کوایک منفرد انداز میں نایاب معلومات کو یکجا کرکے اصل اقتباسات کو ہو بہوُ درج کرنے کے بعد ان کے حوالہ جات کو جدید تقاضوں کے مطابق تحریر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے جس سے ان کی تصنیف میں ایک جدت پیدا ہوگئی ہے۔