تحریر: میمونہ عباس خان کسی بھی شاعر کا کلام اس کی شخصیت پہ پڑے حساسیت کے گہرے پردوں اور مزاج کے ہزاروں رنگوں کی دھنک کا حسین امتزاج ہوا کرتا ہے۔ یہ شاعر ہی کی کام ہے کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کے زینے پر کھڑے ہو کر ہمارے احساسات کی لامحدود وسعتوں پہ محیط دنیا کو ،تخیل کا دلکش پیراہن اوڑھا کر ،لفظوں کی ایک ایسی لڑی میں پروئے کہ پڑھنے والے کو ہر شعر اپنی کتھا لگے۔ایسی ہی خوبصورت کتھائوں سے مزّین،اپنے اندر کئی رنگ سمیٹے “کوئی کوئی بات”،جواد شیخ کے قلم سے نکھر کر سامنے آتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی قاری بیک وقت کئی کیفیات کا شکار ہو جاتا ہے۔ پہلی نظر اگر قاری کی نگاہ کو سادگی بھری ٹھنڈک بخشتی ہے تو دوسری نظر میں اداسی اور ویرانی جکڑلیتی ہے۔اگر اِن نظاروں سے قاری نظر چرانے میں کامیاب ہوجائے توایک سوکھے پیڑ کی ٹنڈ منڈ شاخوں کے پیچھے سے چھب دکھلاتا روشنی کاگولہ سا امید کی ایک کرن کے مانند جگمگاتا ہے۔یوں جواد کی شاعری کی کچھ پرتوں کی ایک بھرپور جھلک ٹائٹل پہ سجے رنگوں سے نکل کر ہماری انگلی تھا م لیتی ہے۔
“کوئی کوئی بات”بہت ساری اپنائیت لئے ،رم جھم برستی بوندوں کی چھایا میں ،ایک دلکش سی دوپہر میں میرے ہاتھوں میںآئی تھی۔ظاہر ہے کہ جواد کے کلام کو کتابی شکل میں دیکھنا ایک خواب تھا اور اِسکی تعبیر اُس لمحے اپنے ہاتھوں میں دیکھنا ایک یادگار لمحہ ! کہ انہوں نے اپنی شاعری کے سفر کے کئی موڑ میرے سامنے طے کئے تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کتاب پڑھتے پڑھتے کئی بار مجھے یہ خیال آتاہے کہ یہ جواد کی آپ بیتی ہے اور اس سے اچھی اور بہتر انداز میں اپنی یادداشت خال ہی کوئی تحریر کرسکتاہے۔
بہت کم کتابیں ایسی ہیں جن کومیری ہمہ وقت توجہ میسر رہتی ہے باوجود اِس کے کہ ہزاروں بار پڑھ رکھی ہوں۔اور”کوئی کوئی بات”مجھ سے کبھی باتیں کرتی ،کبھی اُداس کرتی ،کبھی رُلاتی ،کبھی انا کا ایک ان دیکھاخول خود چڑھاتی ایک عرسے سے اس توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
Lafaz
یہاں لفظ کسی ندے کے بہائو کے مانند شعر میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں۔اگر لفظوں کے بُنت کی بات کریں توجواد کے یہاں شاعری صرف لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ زندگی کو ،انسانی رشتوںاوراُن سے جڑے رویوں کو الگ ہی ڈھب سے برتنے کا نام ہے۔جس میں سچائی ایک مجسم پیکر کاروپ دھارے پوری شان سے جمی ہوئی ہے۔لفظوں کا سادہ سابہائو گویا مشکل سے مشکل کیفیت کو بھی عجب سادگی مگر انوکھی شدت سے بیان کرتاہے۔ یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اُٹھتی ہے؟ لفظ کوئی انگارہ کسیے ہوسکتاہے؟
اس شعر کو پڑھ کر کیا وہ تلخ سی کیفیت قاری کو محسوس نہیں ہوتی جو قدم قدم پر ہمارے اپنے یا پرائے الفاظ کوزہر میں ڈبو کر بڑی آسانی سے ہماری جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔اس شعر کی قرات ہمیشہ ہی اِک بے چینی سے دوچار کرتی ہے اوراِن تمام الفاظ کو زندہ کرتی ہے جو کبھی نہ کبھی ،کسی سلگتے لمحے میں سننے والے کو جھلسانے کا سبب بنتے ہیں مگر اِس اذیت کا بیان اتنا آسان بھی نہیں ۔ایسی ہی مشکل کیفیات کا بے ساختہ بیان “کوئی کوئی بات “کو اہم بناتاہے۔
“کوئی کوئی بات”کا سفراپنے قاری پر یہ راز بھی عیاں کرتاہے کہ جواد اُداسی کو محبوب رکھتاہے ۔اُس کے ہاں اُداسی راج کرتی ہے۔تبھی تووہ اُداسی کا شاعر ہے اوریہاں قدم قدم پر اداسی اپنے قاری سے اتنے رنگ اورروپ لے کر ملتی ہے کہ پڑھنے والا خود اُداسی کا اسیر ہوئے بنا رہ نہیں سکتا۔ ایسا کچھ ہے بھی نہیں جس سے تجھے بہلائوں یہ اداسی بھی مسلسل نہیں دیکھی جاتی
یہ اور بات کہ محسوس تک نہ ہونے دوں جکڑسی لیتی ہے دِل کو تری کوئی کوئی بات
اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو،خدا ہی جانے رنج ایسا ہے کہ اندر نہیں رہنے والا
Muhabbat
محبت کا اظہار یا درد کی کسی کیفیت کا بیان جواد اپنے لفظوں میں زندگی جگاتاہے یوںلفظ،لفظ نہیں رہتے مگر “حال”بن جاتے ہیں تبھی تو “کوئی کوئی بات”میں کہیں شدتوں کا بیان ہے اور کہیں محبتوں کی انتہائوں پر کھڑے محب کا قصہ ،کبھی ہر انسان سے منسلک ،جانا پہچانا سا درد اپنی چھب دکھاتاہے توکہیں معاشرے میں پنپتی محرومیوں کا گلہ اشعار کی شکل میں دکھائی دیتاہے۔کہیں اپنوں سے دوری کا سلگتا احساس ہے
توکہیں محبت کو بے دم کرتی انا پرستی نظر آتی ہے۔کوئی کوئی بات انسانی جذبات واحساسات کے بے پناہ رنگوں کو اشعار کے کینوس پہ اُتارتی نظر آتی ہے۔
نہیں میں صرف بظاہر نہیں ہوا ویران درون ِ ذات بھی شدت کا قحط پڑگیا ہے
یہ جو بکھری ہوئی لاشیں ہیں ورق پر جواد یہ مرے ضبط سے لفظوں نے بغاوت کی ہے
آئینے بول ! ! مجھ میں کچھ زندہ واقعی ہے کہ سانس چلتی ہے
ہر فریبی یہی کہتاہے کہ دوست ! میں وہی ہوں جو نظر آتاہوں
اپنے سامان کو باندھے ہوئے اِس سوچ میں ہوں جو کہیں کے نہیں رہتے وہ کہاں جاتے ہیں
“کوئی کوئی بات”ماضی کا ایک شفاف مگر حساس آئینہ ہے جہاں ہر سویادیں،سیپیوں کے مانند بکھری پڑی ہیں اور جواد کے قلم نے بڑی ہی ترتیب اورنفاست سے ،اِن سیپیوں کو ایک دکھاگے میں نہ صرف پرویا ہے بلکہ سنبھال کر رکھا بھی ہے۔ میں نے اِک عمر سے بٹوے میں سنبھالی ہوئی ہے وہی تصویر جو اِک پل نہیں دیکھی جاتی
کتاب کے ورق پلٹتے ہوئے کبھی یوں بھی لگنے لگتا ہے گویا”کوئی کوئی بات”میں جابجا بکھرے حساسیت کے گہرے رنگ ،جواد کی اپنی شخصیت کا عکس ہیں۔کہیںاُسے اپنے رنج کی تشہیر سے شدید اختلاف نظر آتاہے۔ رنج ہوتاہے تو ایسا کہ بتائے نہ بنے جب کسی اپنے کے باعث کوئی اپنا ٹوٹے
پاس بیٹھے ہوئے یاروں کو خبر تک نہ ہوئی ہم کسی بات پہ اِس درجہ انوکھا ٹوٹے مگر کہیں کہیں وہ اپنی اس کیفیت سے باہر نکلتے بھی نظر آتاہے۔ آئو تقریب ِ رونمائی کریں پائوں میں ایک آبلہ ہوا ہے
Ashar
“کوئی کوئی بات”پر حاوی سارے رنگ میرے من چاہے ہیں۔انہی میں سے کچھ میرے دِل کے بہت قریب اشعار ملاحظہ کیجئے۔ کڑی مسافتوں نے کس کے پائوں شل نہیں کئے؟
کوئی دِکھائو جو بچھڑکے ہاتھ مل نہیں رہا!
بتاسکتاہوں میں صاحب تمہیں سمجھا نہیں سکتا کہ غربت میں ذرا سی بات بھی محسوس ہوتی ہے
میں چاہتاہوں محبت مجھے فنا کردے فنا بھی ایساکہ جس کی کوئی مثال نہ ہو خود اپنی فکر کی گہرائیوں میں گم ہوکر میں اپنی اصل کو بیدار کرنے والا ہوں
زندگی ! میں نے کہ دیا،میں بس جی مرا تجھ سے بھرگیا،میں بس
اوریہ قطعہ ! جو نہ ہو ،وہ بھی دیکھ لیتے ہو تمہیں کتنا دِکھائی دیتاہے وہی کل کائنات ہے اُس کی جس کو جتنا دِکھائی دیتاہے اور۔۔۔آخر میں بے حد پسندیدہ شعر!
ہم نہیں آئیں گے آئندہ تری محفل میں منہ اُٹھائے چلا آتاہے جسے بھی دیکھو