تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دبانے کے لئے بھارتی ایجنسیوں نے ہمیشہ عین اس وقت پراپنی ہی فوج اور عمارتوں کونشانہ بنایا ہے جب پاکستان عالمی برادری کو بھارت کی سفاکانہ کارروائیوں کا چہرہ دکھا رہا ہوتا ہے،جن دنوں پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف روس ،یورپ اور امریکہ کے دورے پر جارہے ہوتے ہیں ،بھارتی ایجنسیوں کی منصوبہ بندیاں خود ساختہ دہشت گردی کے واقعات کوجنم دیکر دہائی دیناشروع کردیتی ہیں تاکہ پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کمزور کیا جاسکے ۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بیس کیمپ اڑی پر ہونے والی حالیہ کارروائی کے نتیجہ میں سترہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت سے یہ آواز اسی بنا پر اٹھائی جارہی ہے کہ پاکستان بھارتی فوج کے کیمپوں اورچھائونیوں پر حملے کراتا ہے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق اڑی میں دھماکے وہاں موجود تیل کے ڈپو میں آگ لگنے سے رونما ہوئے ہیں اور زیادہ تر فوجی اگنی میں جھلس کر مرے ہیں۔ اڑی حملہ سے پہلے اس سال جنوری میں پٹھانکوٹ اور گزشتہ سال گورداسپور اور منی پور میں بھی بھارتی فوج پر دہشت گردوں نے حملے کئے تھے لیکن ان کے الزامات اس نے پاکستان پر تھوپ دئےے ۔جن دنوں یہ واقعات رونما ہوئے یہ وہی دن تھے جب پاکستان اقوام متحدہ میں بھارتی ایجنسیوں اور فوج کی مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے اندر اسکی کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے جارہا تھا یا امریکی صدر سے پاکستانی وزیر اعظم کی ملاقات طے ہوچکی تھی۔
پٹھانکوٹ واقعہ میں پاکستان نے جوائنٹ انویسٹی گیشن کے تحت یہ ثابت کیا ہے کہ بھارتی چھائونی پر حملے میں پاکستان ملوث نہیں ہے بلکہ پاکستان کی حکومت اورایجنسیاں بھارت میں ایسے ہر ُاس حملے کی مذمت کرتی آرہی ہیں جس سے انسانی ہلاکتیں واقع ہوتی ہیں ۔مگر بھارتی سرکار حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر الزامات دھرنا زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔بھارتی میڈیا نے بھی گورداسپور اور پٹھانکوٹ سمیت کئی واقعات میں بھارتی ایجنسیوں کو قصور وار ٹھہرایاہے۔سمجھوتی ایکسپریس اور ممبئی حملوں میں بھی بھارت نے پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کو ذمہ وار ٹھہرایا تھا حالانکہ بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سوامی آسیمانند کو سمجھوتہ ایکسپریس کا ماسٹر مائینڈ ٹھہرایا تھا جبکہ سابق بھارتی تفتیش کار ستیش ورما نے بھی یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ لوک سبھا پر حملے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایک افسر ملوث تھاجس نے یہ سارا ڈرامہ رچایا۔بھارت کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنے کے بعد یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ بھارتی چھائونیوں اور بھارت کے دیگر اداروں پر دہشت گردوں کے حملے باہروالے نہیں اندر والے کراتے اور اسکا الزام پاکستان پر لگاتے اور پاکستان پر الزام لگانے کے بعد انہیں ملک بھر میں جاری ان علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے کا موقع ملتا ہے جنہیں بھارت نے پچاس سال انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے بھارت ان علیحدگی پسندوں کے تانے بانے آئی ایس آئی سے جوڑتا ہے ۔
بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کیوں جنم لیتے اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہ ایسا سوال ہے جس نے بھارت کی سیکولرازم کی بنیادیں ہلا کررکھ دی ہیں۔بھارت ترقی اور بالا دستی کے لئے دنیا بھر کی معیشت کو قابو کرنے کے لئے ہر ملک کے نظام کو مفلوج کرنا چاہتا اور خطے میں کسی دوسرے ملک کو ترقی کا حق نہیں دینا چاہتا۔جبکہ بھارت کے اندر کیا ہورہا ہے اور وہ دوسرے ملکوں میں کررہا ہے،اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اندازہ ہوجائے گا کہ بھارتی ایجنسیاں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے ملک کی کس انداز میں خدمت کرہی ہیں۔
Separatist organizations
بھارت میں اڑسٹھ سے زائد علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں ،ان میں مسلح گروپ بھی موجود ہیں جو بھارتی اداروں اور افواج پر حملے کرتے ہیں اور بھارتی فوج انکے قلع قمع کے لئے ان کا قتل عام کرتی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اڑسٹھ علیحدگی پسند تنظیموں میں سے 17 بڑی اور 50 چھوٹی تحریکیں ہیں ۔ صرف آسام میں 34دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ نکسل باڑی تحریک عروج پر پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں ناگالینڈ ، میزورام ، منی پوراور آسام میں یہ تحریکیں مسلح جدوجہد کررہی ہیں۔بھارتی پنجاب میں خالصتان کا مطالبہ پھر سے سر اٹھا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک عروج پر ہے۔ ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر حصوں بہار،آندھرا پردیش، مغربی بنگال پر بھی اثرڈالا ہے۔
بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی ریاستوں کی آواز دبانے کے لئے بھارتی فوج کو وسیع اختیارات حاصل ہیں۔بھارت میں 1958 میں AFSPA کے نام سے ایک قانون وضع کیا گیاجس کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات حاصل ہوگئے اوراس نے ملک بھر میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنا شروع کردیا۔ اس قانون کے تحت ایک عام فوجی کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو غداری کے زمرے میں لاکر جیل بھجواسکتا ، سر عام قتل بھی کرسکتا ہے۔ان اختیارات کا استعمال کرکے بھارتی فوج علیحدگی پسندوں کا خون بہاتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر اور منی پورہ میں کیا گیا ،بعد ازاں اسے پورے بھارت میں نافذ کردیاگیا۔اب حالات یہ ہیں کہ بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی کوئی بھی تحریک سر اٹھاتی ہے تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچلنے کے درپے ہوتی ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جاتا ، جائیداد و املاک نذر آتش کردی جاتیں ، خواتین کی عصمتیں پامال کرے عبرت کا نشانہ بنادیا جاتا، نوجوانوں کو گرفتار کرکے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں سے اکثر کبھی واپس نہیں آتے۔ اس سب کا مظاہرہ اکثر مقبوضہ کشمیر میں سامنے آتا ہے۔
Violations of Human Rights
موجودہ صدی میں جب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ایسے میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اسکے لئے چیلنج کا درجہ رکھتی ہیں اور اس صورتحال کو دبانے کے لئے بھارتی ایجنسیاں خونی ڈرامہ رچانے سے گریز نہیں کرتیں۔کیونکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بھارت کو کافی سخت ٹائم دے رہی ہیں اور بھارت ان کی رپورٹس کے اثرسے نکلنے میں کوشاں ہے۔ بھارت میں خالصہ تحریک ایک طاقتور مسلح اور فکری تنظیم بن چکی ہے جس کی بنیاد مذہبی طور پر مضبوط ہے۔عالمی سطح پر سکھوں نے بھارت کا محاسبہ کیا ہے اور اسکا الزام بھی وہ پاکستان پر دھرتا ہے کہ پاکستان خالصتان کی مردہ تحریک کو زندہ کررہا ہے حالانکہ پاکستان اس معاملے میں واضع کرچکا ہے کہ خالصتان سمیت بھارت میں کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی مسلح کارروائیوں میں ان کا ساتھ نہیں دیتا ۔
افغانستان میں بھارت کا کردار انتہائی شرمناک حد تک بڑھ چکا ہے۔بھارت نے افغانستان میں اپنے سولہ قونصل خانوں میں پاکستان کے خلاف دہشت گرودوں کے لئے بھرتی سنٹرز کھول رکھے اور پاکستان مخالف طالبان اور کالعدم تحریکوں کو مالی اور تکنیکی سپورٹ فراہم کررہا ہے ۔یہ صورتحال پاکستان کے خلاف تو ہے ہی لیکن افغان طالبان کے لئے یہ گوارہ نہیں کہ بھارت افغانستان میں امریکہ یا روس کے مفادات پورے کرنے اور اقتصادی منصوبوں کی آڑ میں اپنی ایجنسیوں کی جڑیں مضبوط کرکے افغانستان پر قبضہ کرلے۔افغان طالبان نہیں چاہتے کہ چین اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں بیٹھ کر ان دونوں ملکوں کے خلاف کارروائیاں کرتا رہے جس کے نتیجہ میں افغانستان میں استعماری قوتوں کو طاقت ملتی رہے۔افغانستان میں بھارت کے اس کردار پر چین اور پاکستان اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ۔ لداخ اور ارونا چل پردیش پر چین اور بھارت میں شدید تنائو ہے ۔چین نے توکشمیر یوں اوراروناچل پردیش کے شہریوں کو چین کے ویزا سے مستثنٰی قرار دے دیا ہے ۔ بھارت مسلسل الزام لگارہا ہے کہ چین اروناچل پردیش اور لداخ میں مداخلت کرکے بھارت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔لہذا بھارت میں جب بھی دہشت گردی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بھارت چین کی طرف صاف نظروں سے نہیں دیکھتا ۔
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی تحریک کو نوجوان مجاہد وانی کی شہادت کے بعد پھر سے قوت مل گئی اور نوجوان نسل نے غلیلوں کی بجائے بندوق اٹھا لی ہے ۔اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنا چاہا تو بھارت نے انہیں اجازت نہیں دی ۔جبکہ پاکستان مظلوم کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے ایلچی بھیج رہا ہے تاکہ دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا جاسکے ۔اس وقت مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ بن چکا ہے جو اڑسٹھ سالوں سے بھارتی فوج کا تشدد سہہ رہا ہے اور بھارت کو یہاں ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات کرکے وادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اسکو ناکامی مل رہی ہے۔اپنی اس ناکامی پر بھارت بلبلا کر پاکستان پردراندازی اور فوجی چھائونیوں پر حملوں کے الزامات لگا دیتا ہے ۔
٭ بھارت نے بلوچستان کو علیحدہ کرنے کے لئے اپنے ایجنٹوں کو شرپسندوں کی تربیت کے لئے یہاں بھیجا جنہوں نے بلوچستان میں علیحدگی کا ناسورپھیلایا مگر پاکستانی فوج کے کامیاب آپریشنز اور بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاریوں کے بعد بھارت کا عالمی سطح پر محاسبہ کیا گیا تو اس نے کینچلی بدلتے ہوئے خود اپنے اداروں اور لوگوں کو ڈسنا شروع کردیا۔