واشنگٹن (جیوڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کو ’’غیر مشروط مذاکرات‘‘ کی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مذاکرات کے علاوہ پاکستان اور بھارت کو درپیش مسائل کا اور کوئی حل نہیں‘‘۔
بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں، اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ’’امن اور استحکام کے فروغ کے عہد پر قائم ہے، اور یہ کہ اُس کی جانب سے دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف بلا امتیاز کارروائی جاری ہے‘‘، جس کے، بقول اُن کے، ’’کامیاب نتائج برآمد ہو رہے ہیں‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’مسئلہٴ کشمیر کے حل کے بغیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا حصول ممکن نہیں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’بھارت کی پیشگی شرائط، مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘‘۔
وزیر اعظم نواز شریف نےاقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ عالمی ادارہ ’’سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدام کرے‘‘؛ جب کہ، بقول اُن کے ’’پچھلے 70 برسوں سے یہ قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کشمیریوں کے ’’حق خود ارادیت پر عمل درآمد‘‘ کا مطالبہ کیا۔
اُنھوں نے برہان وانی کی ہلاکت کا ذکر کیا اور کہا کہ پچھلے دو ماہ کے دوران بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ’’سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 200 سے زیادہ کشیمری ہلاک ہوچکے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’محاذ آرائی جنوبی ایشیا کا مقدر نہیں بننا چاہیئے‘‘؛ اور یہ کہ ’’پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے، جس کے لیے میں نے کئی بار مذاکرات کی پیش کش کی ہے، تاکہ درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے‘‘۔
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ’’پُرامن اور مستحکم تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے‘‘، جس کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے کہا کہ ’’دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے‘‘، اور اس ضمن میں، ضرب عضب آپریشن کا ذکر کیا۔
افغانستان کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں تبھی امن آئے گا جب تمام فریق اس نتیجے پر پہنچیں کہ افغان لڑائی کا کوئی فوجی حل نہیں اور با معنی بات چیت کا عمل شروع کیا جائے، تاکہ داخلی طور پر مفاہمت اور امن کا فروغ ممکن ہو‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں ساڑھے تین عشروں سے جاری تنازع اور افراتفری کے نتیجے میں پاکستان کے لیے سنگین سکیورٹی اور معاشی مشکلات پیدا ہوئی ہیں‘‘۔ اس حوالے سے، اُنھوں نے 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا ذکر کیا جو آج بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے ماضی میں افغانستان اور طالبان کی بات چیت کے لیے مفاہمتی عمل میں ’’سہولت کار کا کردار ادا کیا‘‘۔
افغان مہاجرین کی واپسی کے بارے میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ افغان مہاجرین ’’رضاکارانہ طور پر اور عزت کے ساتھ لوٹیں‘‘؛ اور جب تک ایسا ممکن ہو، ’’بین الاقوامی برادری کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں‘‘۔
’ضرب عضب آپریشن‘ کے سلسلے میں، اُنھوں نے کہا کہ اب تک ہزاروں بے گناہ شہری دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں لقمہٴ اجل بن چکے ہیں، جب کہ جاری فوجی کارروائی میں سکیورٹی افواج کے ہزاروں جوان جانیں دے چکے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ مؤثر کارروائی ہر صورت جاری رہے گی، جب تک دہشت گردی کا قلع قمع نہیں ہوجاتا‘‘۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ’’ماورائے عدالت ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں‘‘، اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ’’حقائق جاننے کے لیے ایک مشن تشکیل دیا جائے، تاکہ بھارتی مقبوضہ افواج کی جانب سے برتی گئی بربریت کی چھان بین کی جاسکے، اور ذمہ داران کو سزا دی جا سکے‘‘۔
داعش کے بارے میں، نواز شریف نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بے چینی ’’شدید تر ہوتی جارہی ہے، جس کے توڑ کے لیے فوری بین الاقوامی کوششیں لازم ہیں‘‘۔
اُنھوں نے مسئلہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں تب تک امن نہیں آسکتا ’’جب تک بے انصافی جاری رہے گی‘‘۔ بقول اُن کے، ’’مدتوں پرانہ فلسطین کا المیہ اس بات کا متقاضی ہے کہ بین الاقوامی برادری اقدام کرے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا ’’سب سے زیادہ شکار رہا ہے‘‘، جس میں وہ دہشت گردی بھی شامل ہے ’’جس کی بیرون ملک سے حمایت، سرپرستی اور مالی معاونت ہو رہی ہے‘‘۔