تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم کی بے پناہ حمد وثناء اور تاجدار انبیا فخر کائنات جناب محمد مصطفی کریم کی ذات پاک پر کروڑوں درودوسلام کے بعد حسب وعدہ اپنے اس مضمون کو اختتام کی طرف لے کر چلتے ہیں بات چل رہی تھی کالونی مافیا کی جس میں اکثریت اس طبقہ کی ہے جس نے اپنی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے ہائوسنگ کالونیوں کا دھندہ شروع کیا جوہر ٹائون لاہور کا ہزاروں ایکڑ رقبہ زرعی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر پڑا اپنے مالک کے دام دن رات بڑھا رہا ہے اسی طرح کے کئی ٹائون کالونیاں اور شہر پورے صوبہ میں موجود ہیں جنہیں ایسے گروہ نے خریدا جس کے پاس وسائل تھے اور حکومت سے منظوری لیے بنا ہی اسے کالونی میں تبدیل کرکے ہرے بھرے کھیتوں کی جگہ دوچار پختہ سڑکیں بنا کر سالہا سال خالی رہنے کے بعد وہ رقبہ آبادی میں تبدیل ہوا اس مافیا نے بڑے شہروں کے علاوہ اپنے نیٹ ورک کو دیہات کی سطح تک ایسے پھیلایا کہ پچھلے دو چار سالوں میں ہی آپکو ہر دیہات کے ساتھ خوبصورت چاردیواری اور انتہائی جدید طرز کا بنا ہوا گیٹ لازمی ملیگا جس کے ساتھ فلیکس یا سائن بورڈ پر کالونی کا نام لکھا ہوگا۔
اندر جاکر دیکھیں تو دو چار گھر وں کے علاوہ آپکو جوہڑ اور ٹوٹی پھوٹی سڑک کے نشان ملیں گے اگر آپ معلوم کرنا چاہیں تو یہ معلوم ہوگا کہ پانچ ساک قبل یہ کالونی بنی اور ابھی تک اس کے پلاٹس سیل ہورہے ہیں اس کے بر عکس ہماری پنجاب حکومت کا ہزاروں ایکڑ رقبہ خالی پڑا ویران ہورہا ہے یا کسی وزیر مشیر نے اسے اپنے تعلق واسطہ سے انتہائی کم نرخ پر لیز پہ دیا ہوا ہے کالونی مافیا میں ایک بہت بڑا نام بحریہ ٹائون بھی جس کے مالک ملک ریاض صاحب بہت انسان دوست اور غریب پرور سمجھے جاتے ہیں۔
ملک صاحب نے کئی خیراتی ادارے اور دیگر فلاحی منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں مگر کوئی ذی شعور اگر غور کرے تو ملک صاحب کے بحریہ ٹائون کا محل وقوع ہر جگہ پہ ایسے ہوگا جہاں کچھ حکومتی رقبہ پڑا ہو اور ساتھ ملک صاحب کچھ زمین سولین لوگوں سے خرید کر بحریہ ٹائون کا بورڈ لگوا دیں پھر اس ٹائون میں پلاٹس کا ریٹ ایسے ہی ہوگا جیسے سونے کی کانوں کے شئیر بک رہے ہوں یا اس جگہ سے تیل نکل آیا ہو بحریہ ٹائون کے پر تعیش مکان اپنے مالکان کے رزق حلال کی گواہی دیتے ہیں۔
Government
ہمارے ضلع کے ای ڈی او پلاننگ اگر اپنے دفتر سے باہر نکل کر وزٹ کریں اور سرکاری سطح پر غرباء کے لیے ایک کالونی بنانا چاہیں تو ضلع کے متعدد ریسٹ ہائوسز جو سینکڑوں ایکڑ اراضی کے ساتھ ساتھ انگریز دور کی عمارتیں بھی رکھتے ہیں وفاق کے رقبہ میں ریلوے کی زمین جو کسی وقت آفیسرز کے بنگلے تھے ریلوے ہسپتال تھا ڈاک بنگلہ تھا اب وہاں الو بول رہے ہیں اور کھنڈر چور ڈاکوئوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں اسی طرح اوقاف کی ہزارہا ایکڑ زمین بھی مفت جیسے ریٹ پر لیز پر ہے اگر حکومت ہر ضلع میں ایک سرکاری کالونی بنادے جس کے پلاٹس کی قیمت ایسی ہو جو کم آمدنی والا طبقہ بھی خرید سکے اور کالونی مافیا کی طرح اعلان کردہ سہولتوں میں سے آسان اقساط کی سہولت موجود ہو کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں حکومت کا رقبہ موجود نہ ہو اور اس اقدام سے بے گھر افراد کوگھر ملیگا۔
حکومت کو اپنے فضول پڑے یا قبضہ گروپ کے قبضہ میں پھنسے ہوئے رقبہ کے عوض بھاری ریونیو ملے گا اور سب سے بڑا فائدہ جو مجموعی طور پہ ملک کو ہوگا وہ یہ کہ ہمارے کھیت ویران ہونے سے بچ جائینگے اور ہر اس کالونی ماسٹر کی حوصلہ شکنی ہوگی جس نے غریب کسان سے اسکی بیٹی کے جہیز بنانے کی مجبوری یا جعلی زرعی ادویات سے فصل خراب ہونے پر سپرے ڈیلر کا قرض اتارنے کی مجبوری یا اسکی دیگر کسی ایسی مجبوری کے تحت اسکا دوچار ایکڑ سونا پیدا کرنے والا رقبہ کوڑیوں کے بھائو خرید کر اسے کالونی میں تبدیل کرکے سرکاری خزانہ کو بھی چونا لگادیا ہو اور بھولی بھالی عوام کو خوبصورت کوٹھیوں والے پمفلٹ دکھا کر وہی رقبہ انتہائی مہنگے داموں بیچ کر رفو چکر ہورہا ہو۔
روٹی کپڑا تو عوام جیسے تیسے پورا کر ہی رہی ہے مکان کا حکومتی وعدہ پورا ہوجائے گا اور اللہ کریم ایسے رفاع عامہ کے کام کرنے والے افراد کو اسکے گناہوں کی معافی اور اپنی مغفرت کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ کا کوئی بھی وعدہ سیاسی وعدہ نہیں ہوتا اور بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے منصوبوں کے بجائے اللہ کریم کے وہ بندے جو تخلیق کے مرحلہ سے گزر آئے اور اب اللہ کے حکم کے مطابق اپنے زیر کفالت لوگوں کی ضروریات کو پورا کررہے ہیں جب ایک منصوبہ بندی کے تحت ان کی آباد کاری ہوجائے گی تو آپ کو چپہ چپہ پر بنی بستیاں نظر نہیں آئینگی والسلام۔