تحریر: افضال احمد ہم سب جانتے ہیں کہ شہری اور دیہاتی زندگی میں بہت ہے زیادہ فرق ہے’ آج کے جدید دور میں بھی یہ دیہات اور شہر کی زندگی میں فرق قائم ہے۔ شہر میں انسان کو ہر سہولیات میسر ہوتی ہیں’ یہ ایک پر تعیش زندگی ہوتی ہے’ شہر کی زندگی میں تیزی اور برق رفتاری پائی جاتی ہے جبکہ دیہات کی زندگی انتہائی سادہ اور عیش و عشرت سے تقریباً عاری ہوتی ہے۔ دیہاتی زندگی آدمی جو عام طور پر کسان ہی ہوتا ہے یہ ایک ایسی شخصیت ہے جس کے دم قدم سے اس دنیا کی ساری رونق ہے’ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسانوں کو وہ سہولیات میسر نہیں جو ہونی چاہئیں’ میں اتفاق سے ایک گائوں میں چلا گیا وہاں کسانوں کے حالات دے یکھ دل خون کے آنسو روتا تھا کہ ہمیں جن فصلوں کا پتہ بھی نہیں یہ کسان بیچارے دن رات محنت کر کے ہمارے لئے خوراک تیار کرتے ہیں جس کا حکومت معاوضہ بھی مناسب نہیں دیتی۔
دنیا کی ہر چیز بدلتی رہتی ہے’ تغیر ہی ایک ایسی چیز ہے جسے قیام و ثبات حاصل ہے’ موسم بدلتے ہیں’ آج گرمی ہے’ پھر سردی ‘ کبھی بہار ہے اور کبھی خزاں’ زندگی رواں دواں ہے۔ حکومتیں اور سلطنتیں بھی بدلتی رہتی ہیں’ آج ایک بادشاہ ہے تو کل فقیر’ اسی طرح زندگی میں ترقی اور تہذیب کے ساتھ معمولاتِ حیات میں بھی تبدیلی آرہی ہے ‘ لیکن دیہات کی زندگی اپنے اندر ایک قدیم طرز لئے ہوئے ہے’ وہ اپنی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہے’ اس کو نہ تہذیب حاضر کی چمک دمک متاثر کر سکتی ہے نہ زمانے کے انقلاب۔
ہمارے ملک میں دیہاتی انسان شاید دنیا کا مظلوم ترین بے بس و بے کس انسان ہے’ اس کی زندگی ایک ڈگر پر چل رہی ہے۔ دیہاتی زندگی کا ماحول پاکیزہ’ صاف ستھرا اور کثافت سے مبرا ہے’ نہ وہاں آلودگی پائی جاتی ہے جس سے سانس گھٹن کا شکار ہو ‘ نہ وہاں کی فضا آلودہ ہے’ ماحولیاتی آلودگی تو دیہات میں بہت کم ہے جبکہ ہمارے شہر میں دولت سے مالا مال ہیں۔ ٹریفک کا اژدھام کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گاڑیوں کے ایندھن کا جلتا ہوا زہریلا دھواں جو ہر سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں اترتا ہے اور ہمارے شہروں کے کی زندگی میں نوجوان کا سگریٹ پینا بھی ضروری ہوتا جار ہا ہے ایک پہلے ٹریفک کا دھواں پھیپھڑوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے اوپر سے ہمارے نوجوان کالج’ یونیورسٹی تو کیا اب تو سکول کے نوجوان جب تک صبح اُٹھ کر سگریٹ نہ پی لیں سکول نہیں جاتے اور سگریٹ پئے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
Food
شہروں میں غذائیں تو ہیں مگر خالص نہیں اب ان غذائوں کے خالص نہ ہونے میں ہمارے کسان بھائیوں کا کوئی ہاتھ نہیں’ ملاوٹ مافیا جو ہمارے شہروں میں بستی ہے وہ ہر کھانے پینے والی چیز کسانوں سے خالص حاصل کر کے ملاوٹ کر کے ہم شہریوں تک پہنچاتے ہیں’ ملاوٹ مافیا ہم شہریوں کے خون میں زہر گھول رہے ہیں۔ شہروں میں انسانیت نام کو کتابوں میں لکھا اور پڑھا تو جاتا ہے لیکن حقیقی زندگی سے انسانیت کا کوئی تعلق نہیں رہا’ ہمارے ہمسائے بھوکے مر رہے ہیں’ ہمارے سگے بھائی بھوکے مر رہے ہیں امیر بھائی کو غریب بھائی کا احساس ہی نہیں’ بس اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں ہم سب۔
دیہات کی زندگی ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک ہے’ وہاں انسانیت ہے تو ساتھ میں خلوص بھی موجود ہے۔ فضا ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی سے ناآشنا ہے۔ دیہات میں حقا پیا تو جاتا ہے لیکن زیادہ تر بوڑھے کسان حقا پیتے ہیں دیہات میں شہر کی نسبت نوجوان نسل میں سگریٹ پینے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ دیہاتی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار ‘ محبت اور خلوص کے ساتھ رہتے ہیں۔ سادہ غذائیں کھاتے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ان میں کوئی غرض کوئی لالچ نہیں جبکہ شہر کی زندگی اس قسم کے عذابوں سے بھری پڑی ہے شہر میں تو فوتگی میں بھی ہم بغیر کسی غرض کے جاتے ہی نہیں۔ شہروں میں ہم شادی’ فوتگی میں یہ ہی سوچ کر جاتے ہیں کہ فلاں آدمی ہمارے ہاں فوتگی’ شادی میں آیا تھا اگر نہیں آیا ہوتا تو ہم اُس کے گھر فوتگی پر بھی نہیں جاتے۔شہروں میں سب کچھ دیکھاوا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دیہات کی زندگی بہت ہی سادہ ہے۔ اس میں کوئی مکاری’ فریب اور تصنع نہیں ہے۔ وہ رنگ تکلف کے غازے سے نا آشنا ہے۔ سادگی اور محنت اس کا طرئہ امتیاز ہے’ اس کی طرزِ بودو باش محدود اور کام انتہائی محنت طلب ہے۔ دیہات کا باشندہ زمین کے ذروں کو اپنا خون دیتا ہے اور زمین اس کے لئے سونا اگلتی ہے۔ شہر کی زندگی میں ہر شخص غیر مطمئن ہے۔ پریشانی نے زندگی کے ہرپہلو کا احاطہ کر لیا ہے۔ زندگی کا نظام سکون سے تہی ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کی شاخ سے حادثات کے نت نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ انسان انسان کا دشمن ہوتا جا رہا ہے’ اطمینان’ قناعت اور سکون کی دنیا لٹ گئی ہے۔ جس طرف دیکھو انسان سکون کا متلاشی ہے۔ سکون اس لئے ناپید ہے کہ انسان نے اپنی ضروریات کو لامحدود کر لیا ہے لیکن دیہاتی زندگی کے معمولات چونکہ مختصر اور سادہ ہوتے ہیں’ اس لئے اس کے شب و روز میں ایک دلجمعی اور اطمینان ہوتا ہے۔
Farmers
آج بھی گائوں کا ایک کسان جو اپنی زمین کا سینہ چیر کر اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ تہی داماں ہے’ وہ آج بھی جدید ذرعی آلات سے محروم ہے’ فارن کنٹریز میں کسانوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے سب فارن کنٹریز والے پاکستان سے زیادہ خوشحال ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کسان جو ہماری خوراک تیار کرتے ہیں انہیں استحصالی کے سوا کچھ نہیں دیا جاتا۔ اچھے بیجوں سے محروم ہے’ فصلیں اگانے اور پروان چڑھانے کے لئے جس قدر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے محروم ہے۔دیہاتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہاں بیماروں کے لئے شفا خانے نہیں’ لوگ آج بھی علاج معالجے کے لئے قصبوں اور شہروں کا رُخ کرتے ہیں جہاں ڈاکٹرز ان کی تمام جمع پونجی ایک ہی دن میں لے لیتے ہیں۔
دیہاتی زندگی غربت و افلاس کی زندہ تصویر ہے’ رہائش کے لئے موزوں گھروں کی تعمیر سے محروم ہے’ غرض کہ گائوں کی زندگی محرومیوں کا شکار ہے وہ سہولت سے محروم ہے۔ دیہاتی زندگی کی ایک عجیب داستان ہے وہاں کے باشندے صبح سویرے ہی اُٹھ جاتے ہیں’ جبکہ اس وقت شہری زندگی سکون کی گہری نیند سو رہی ہوتی ہے نہ اسے مؤذن کی آواز جگا سکتی ہے نہ مرغانِ سحر کے نغمے۔دیہات میں فجر کے وقت ہی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے لوگ صبح اٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں’ اپنے پروردگار کا نام لے کر وہ اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں اور اس نام سے انجام’ طلوع آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ ہی دیہات کی زندگی رواں دواں ہو جاتی ہے۔ کسان اُٹھ کر اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے’ ہل جوتتا ہے’ فصل بوتا ہے’ نلائی کرتا ہے’ پانی دیتا ہے’ زمین کی سختی اس کے ہل کے سامنے نرم ہو جاتی ہے’ اونچ نیچ خود بخود ہموار ہو کر رہ جاتی ہے اور ہم کسانوں کی اس محنت سے بے خبر ہو کر سو رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے کسان کے آج جتنے بھی مسائل ہیں اور جتنی بھی محرومیاں ہیں ان سب کے ذمہ دار حکومتی نمائندے ہیں اس پر ستم یہ کہ ان سب محرومیوں کو دور کرنے کے بجائے حکومت کا محکمہ مال ا ن غریبوں کو طرح طرح سے ہمیشہ ستاتا ہی رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دیہات کے ان سادہ لوح انسانوں کے جسموں میں جو تھوڑا بہت لہو رہ گیا ہے’ اسے بھی نچوڑ لیا جائے۔حکومتی سطح پر دیہات کے باشندوں کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جانا چاہئے’ ہمارا دیہات میں رہنے والا بھائی جب خدانخواستہ بیمار ہوتا ہے تو اسے علاج و معالجہ کے لئے شہر کا رُخ نہ کرنا پڑے۔ دیہاتوں میں شفا خانے بنائے جائیں مفت دوائیاں فراہم کی جائیں اور سینے میں دل رکھنے والے ڈاکٹروں کو دیہاتی ہسپتالوں میں تعینات کیا جائے۔